اسلام آباد:پاکستان میں امریکی ناظم الامور نٹیلی اے بیکر نے کہا ہے کہ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے، اسے کسی بھی ملک کے قرضوں کے جال میں پھنسنے سے بچنا چاہیے اور اپنے نجکاری پروگرام پر پوری سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق پاکستان میں آئی ایم ایف کے اصلاحاتی پروگرام پر مکمل عمل ہی اقتصادی پالیسیوں کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان میں ایسی معاشی اصلاحات چاہتا ہے جو معیشت کو زیادہ مضبوط، بہتر اور پائیدار بنا سکیں، جبکہ ورلڈ بینک بھی پاکستان کے ساتھ موثر انداز میں تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔
ایوانِ صدر میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان کے کئی شہروں کا دورہ کرچکی ہیں، تاہم وہ اب تک آزاد کشمیر نہیں جا سکیں مگر وہ اس خطے کا دورہ کرنا چاہتی ہیں۔
نٹیلی اے بیکر نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون پہلے ہی بہت اچھی سطح پر موجود ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کی خودمختاری امریکہ کے لیے خصوصی اہمیت رکھتی ہے اور امریکہ وسیع تر معاشی تعاون کے ذریعے پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔
پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کا حق رکھتا ہے۔ تاہم انہوں نے مشورہ دیا کہ پاکستان کو اپنی معاشی خودمختاری اور قومی مفادات کا محتاط انداز میں تحفظ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا منصوبہ جو کسی ملک کو قرض کے جال (Debt Trap) میں دھکیل دے، عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنتا ہے۔
امریکی ناظم الامور نے یہ بھی بتایا کہ واشنگٹن کو پاکستان اور چین کے تعلقات کی حساس نوعیت کا مکمل ادراک ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ہی اپنی بین الاقوامی مصروفیات میں سے وقت نکال سکیں، وہ پاکستان کا دورہ کریں گے، جو جلد متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ امن کے داعی ہیں اور پاکستان نے انہیں نوبل انعام کے لیے نامزد کرکے درست قدم اٹھایا ہے۔
ان کا یہ دورہ دراصل اس لئے ہوا کہ وہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم کو سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے ملک کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ”نشانِ پاکستان“ دینے کی تقریب میں شرکت کے لیے ایوانِ صدر آئی تھیں۔
غیر رسمی گفتگو کے دوران انہوں نے آزاد کشمیر میں حکومت کی تبدیلی، آزاد کشمیر کے شہریوں کے پاکستان اور آزاد کشمیر میں دوہرے ووٹ کے طریقہ کار اور انتخابی نظام سے متعلق بھی متعدد سوالات کیے۔