لاہور:مریدکے میں حالیہ پرتشدد احتجاج کے بعد پولیس نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد رضوی اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متعدد شرپسند عناصر کو حراست میں لے لیا گیا ہے جبکہ مرکزی قیادت کی تلاش جاری ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی کی سرگرمیاں کسی خود رو احتجاج کا نتیجہ نہیں بلکہ منظم تشدد کی منصوبہ بندی کا حصہ تھیں۔ قیادت نے مظاہرین کو اشتعال دلایا اور بعد ازاں موقع سے فرار ہو کر عوام اور ریاست دونوں کو خطرے میں ڈال دیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق ہتھیار چھیننا، پیٹرول بموں کا استعمال اور گاڑیوں کو نذرِ آتش کرنا کسی بھی طور پرامن احتجاج کا حصہ نہیں کہلایا جا سکتا، ایسے اقدامات کرنے والوں کو قانون کے مطابق سخت جواب دہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ذرائع کے مطابق یہ واقعہ 12 اور 13 اکتوبر کی درمیانی شب پیش آیا جب مظاہرین نے مریدکے کے مختلف مقامات پر ہنگامہ آرائی کی۔ تصادم کے دوران ایک بہادر پولیس افسر شہید اور درجنوں اہلکار زخمی ہوئے۔ پولیس نے حالات قابو سے باہر ہونے پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا تاکہ بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔
ابتدائی طور پر انتظامیہ نے ٹی ایل پی قیادت سے مذاکرات کے ذریعے احتجاج کو پُرامن طور پر کسی متبادل مقام پر منتقل کرنے کی کوشش کی، مگر مذاکرات کے دوران مظاہرین کو اشتعال دلانے کا سلسلہ جاری رہا۔ کچھ شرپسند عناصر نے پولیس اہلکاروں پر حملے کیے، ان سے اسلحہ چھینا اور اسی اسلحے سے فائرنگ بھی کی۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹس میں جو گولیاں برآمد ہوئیں وہ انہی چھینے گئے ہتھیاروں سے چلائی گئیں۔
واقعے کے دوران مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں اور اہلکاروں پر منظم انداز میں حملے کیے، کم از کم 40 سرکاری و نجی گاڑیاں جلا دی گئیں، متعدد دکانوں کو بھی نذرِ آتش کیا گیا۔ پولیس کی رپورٹ کے مطابق 48 اہلکار زخمی ہوئے جن میں سے 17 کو گولی لگی۔ تمام زخمیوں کو مختلف اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے جہاں ان کا علاج جاری ہے۔
ابتدائی معلومات کے مطابق تصادم میں تین ٹی ایل پی کارکن جبکہ چھ راہ گیر جاں بحق ہوئے، جب کہ 30 سے زائد شہری زخمی ہوئے۔ مشتعل ہجوم نے یونیورسٹی بس سمیت کئی گاڑیاں زبردستی لے جا کر احتجاج میں استعمال کیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ بعض گاڑیاں ہجوم پر چڑھانے کی بھی کوشش کی گئی۔ موقع پر شرپسند عناصر نے پتھراؤ، پیٹرول بموں اور کیلوں والے ڈنڈوں سے پولیس پر حملے کیے، جبکہ کئی مقامات سے اندھا دھند فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ چھ بے گناہ راہ گیروں کی ہلاکت ایک قومی المیہ ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے مشترکہ اور مؤثر حکمتِ عملی اپنائی جائے تاکہ ایسے سانحات دوبارہ رونما نہ ہوں۔
یہ افسوسناک واقعہ ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ تشدد اور انتہا پسندی کے ذریعے اپنے مطالبات منوانا نہ صرف قانون شکنی ہے بلکہ معاشرتی امن کے لیے سنگین خطرہ بھی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے واضح کر دیا ہے کہ کسی بھی صورت میں ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والوں سے نرمی نہیں برتی جائے گی۔