اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے واضح حکم جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے پر شہریوں کے خلاف فوری طور پر مقدمہ درج نہ کیا جائے، بلکہ پہلے انہیں انتباہ (وارننگ) اور جرمانہ کیا جائے۔
یہ فیصلہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سردار محمد سرفراز ڈوگر نے اس درخواست پر سنایا، جس میں ایک شہری نے بغیر لائسنس گاڑی چلانے والوں کی گرفتاری، مقدمات کے اندراج اور گاڑیوں کی ضبطگی کی ڈیڈ لائن کے خلاف چیلنج دائر کیا تھا۔
سماعت کے دوران سی ٹی او اسلام آباد کیپٹن (ر) حمزہ ہمایوں عدالت کے نوٹس پر ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ چیف ٹریفک آفیسر کی جانب سے جاری کردہ ڈیڈ لائن کے بعد گاڑیاں ضبط کرنے، مقدمات درج کرنے اور گرفتاریاں کرنے کا اقدام غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، کیونکہ ایسی سزائیں پارلیمنٹ کی قانون سازی یا کابینہ کی منظوری کے بغیر نہیں دی جا سکتیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پٹیشن میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ جیسے کوئی نیا قانون بنایا گیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی غفلت یا لاپرواہی سے گاڑی چلائے تو اس پر مقدمہ درج ہو سکتا ہے، تاہم صرف لائسنس نہ ہونے کی صورت میں فوری مقدمہ درج کرنا درست نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ “پاکستان کو بنے ہوئے 70 سال سے زائد ہو گئے، لوگوں کو اب تک یہ شعور ہونا چاہیے کہ لائسنس رکھنا لازمی ہے۔ اگر کسی کے پاس اصل لائسنس موجود نہیں تو کم از کم اس کی کاپی یا ڈیجیٹل ثبوت دکھایا جا سکتا ہے۔”
سی ٹی او اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ لائسنس میں جعلسازی روکنے کے لیے جدید سکیورٹی فیچرز شامل کیے گئے ہیں اور اب تک کسی بھی شہری کے خلاف بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
اس پر چیف جسٹس نے مشورہ دیا کہ “اب تو نادرا ایپ کے ذریعے شناختی کارڈ کی تصدیق ممکن ہے، اسی طرح ڈرائیونگ لائسنس کی بھی آن لائن تصدیق کا نظام متعارف کرایا جائے۔” اس موقع پر سی ٹی او نے کہا کہ محکمہ نادرا کے ساتھ ڈیجیٹل لنکنگ پر کام کر رہا ہے تاکہ شہریوں کے لیے سہولت پیدا کی جا سکے۔
چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے قرار دیا کہ اگر کسی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا جائے تو وہ کریمنل ہسٹری میں شامل ہو جاتا ہے، لہٰذا پہلی مرتبہ خلاف ورزی پر صرف وارننگ اور جرمانہ کافی ہے۔ تاہم، اگر کوئی دوبارہ یہی غلطی کرے تو سخت کارروائی کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ “انسان سے غلطیاں ہو جاتی ہیں، لیکن قانون میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔”
عدالت نے شہری کی درخواست ان ہدایات کے ساتھ نمٹا دی کہ ٹریفک پولیس شہریوں کے ساتھ منصفانہ اور قانون کے مطابق برتاؤ کو یقینی بنائے۔