ہر خاتون کو وراثت میں حصہ دلانا ریاست کی ذمہ داری،سپریم کورٹ کا فیصلہ

اسلام آباد:سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ ہر پاکستانی خاتون کو وراثت میں اُس کا جائز اور شرعی حصہ یقینی طور پر دلایا جائے۔ عدالت نے خواتین کو ان کا یہ ‘خدا کا عطا کردہ’ حق دلانے کے لیے ایک مؤثر اور فعال نظام قائم کرنے کی بھی ہدایت دی۔

سپریم کورٹ کے حکم نامے میں واضح کیا گیا کہ آئین اور اسلام کی صریح ہدایات کے تحت ریاست پر لازم ہے کہ خواتین کو ان کے وراثتی حقوق بلا روک ٹوک اور مؤثر انداز میں فراہم کیے جائیں۔ یہ تفصیلی رائے سات صفحات پر مشتمل اُس فیصلے میں سامنے آئی جو جسٹس اطہر من اللہ نے 29 اگست کو سماعت مکمل ہونے کے بعد تحریر کیا تھا۔ یہ فیصلہ ان کے 13 نومبر کو مستعفی ہونے سے قبل تحریر کردہ آخری اہم فیصلوں میں سے ایک ہے۔

سپریم کورٹ کے بینچ نے ابرار حسین کی جانب سے 3 مارچ 2023 کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل خارج کر دی۔ سندھ ہائی کورٹ نے 2021 میں ابرار حسین کی اپیل اس بنا پر مسترد کردی تھی کہ وہ 2019 کی ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف قابل قبول بنیاد فراہم نہیں کرسکے تھے۔

یہ مقدمہ ابرار حسین اور ان کی بہن بی بی شاہدہ کے درمیان جائیداد کی تقسیم کے تنازع سے متعلق تھا۔ شاہدہ نے مارچ 2015 میں درخواست دائر کی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ والد کے انتقال کے بعد بار بار وراثتی حصہ مانگا گیا مگر ابرار حسین مسلسل انکار کرتے رہے۔ شکایت کے بعد مزید دو بہن بھائیوں نے بھی اپنا حق مانگا لیکن انہیں بھی محروم رکھا گیا۔

سپریم کورٹ کے مشاہدے کے مطابق ابرار حسین نے جائیداد پر مکمل قبضہ کرکے دیگر قانونی وارثوں کو ان کے حق سے محروم کیا۔ فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ درخواست گزار کے پاس کسی بھی قانونی یا حقیقی بنیاد پر کوئی مضبوط مؤقف موجود نہیں تھا، اس کے باوجود وہ مقدمات دائر کرتا رہا جس کے باعث اس کے بہن بھائی اپنے جائز حق سے طویل عرصہ دور رہے، حالانکہ یہ حق انہیں یکم جنوری 2002 کو والد کے انتقال کے وقت ہی مل چکا تھا۔

عدالت نے قرار دیا کہ درخواست گزار کی جانب سے دائر مقدمہ دراصل وراثتی حق میں تاخیر اور قانونی عمل کا غلط استعمال تھا، جس کا مقصد محض دیگر وارثوں کے حقوق روکنا تھا۔

فیصلے میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے کہ ہر خاتون کو وراثت کے حق سے نہ صرف آگاہ کیا جائے بلکہ اسے بغیر خوف، دباؤ اور غیر ضروری عدالتی تاخیر کے اپنا حق حاصل کرنے کے قابل بنایا جائے۔ عدالت نے ریاست کو ایک فعال اور قابل رسائی نظام قائم کرنے کی ہدایت دی جس کے ذریعے خواتین کی شناخت، ان سے رابطہ اور ان کے قانونی حقوق کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید لکھا کہ جو لوگ دھوکے، جبر یا ناپسندیدہ اثر و رسوخ کے ذریعے خواتین کو ان کے الہی اور قانونی حق سے محروم کرتے ہیں، انہیں قانون کے تحت سخت جواب دہ بنایا جانا چاہیے۔

فیصلے میں مارچ میں وفاقی شریعت کورٹ کے اُس اہم فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں ’چادر‘، ’پرچی‘، اور ’حق بخشوائی‘ جیسی روایات کو غیر اسلامی اور غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ وراثت کا حق انسانی اختیار نہیں بلکہ قرآن میں بیان کردہ اللہ کا حکم ہے، اور کسی بھی شخص کی جانب سے اس حق کو روکنے یا سلب کرنے کا عمل نہ صرف قانون بلکہ الہی حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

عدالت نے کہا کہ وہ تمام ثقافتی اور سماجی رسومات جن کی بنیاد پر خواتین وراثتی حق سے محروم کی جاتی ہیں “جہالت کی باقیات” ہیں جنہیں اسلام نے ختم کرنے کا حکم دیا ہے، اور ریاست پر لازم ہے کہ وہ ایسی غیر منصفانہ رسوم کے خاتمے کو یقینی بنائے۔

سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں ابرار حسین پر 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا، جسے سات دن کے اندر سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے پاس جمع کرایا جائے گا اور یہ رقم قانونی وارثوں میں تقسیم کی جائے گی۔