سیلاب کے بعد پاکستان کی معیشت دباؤ میں، عالمی بینک نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

عالمی بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ حالیہ سیلابی تباہ کاریوں نے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جس کے نتیجے میں رواں مالی سال کے دوران معاشی ترقی کی رفتار کم اور مہنگائی میں نمایاں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ ادارے کے مطابق، موجودہ صورتحال میں پاکستان کو اپنی معاشی پالیسیاں ازسرِ نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی مجموعی شرحِ نمو 2.6 فیصد تک محدود رہنے کا امکان ہے، جو حکومت کے مقرر کردہ 4.2 فیصد ہدف سے خاصی کم ہے۔ عالمی بینک کے تخمینے کے مطابق، آئندہ مالی سال میں شرحِ نمو 3.6 فیصد تک بڑھ سکتی ہے، تاہم سیلاب کے اثرات اور عالمی معاشی غیر یقینی صورتحال اس رفتار کو متاثر کر سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، سیلاب کے نتیجے میں ملک کی زرعی پیداوار میں 10 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے، جس نے براہِ راست خوراک کی فراہمی، برآمدات اور دیہی معیشت کو متاثر کیا ہے۔ چاول، کپاس، گندم، گنا اور مکئی جیسی فصلوں کو بھاری نقصان پہنچا ہے، جبکہ زرعی سرگرمیوں میں سست روی کے باعث مالیاتی خسارہ 5.5 فیصد تک بڑھنے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

عالمی بینک کے مطابق، خوراک کی فراہمی متاثر ہونے اور قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگائی کی شرح 7 فیصد سے تجاوز کرنے کا امکان ہے، جو عوام کی قوتِ خرید کو مزید متاثر کرے گی۔ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اگر حکومت مالیاتی نظم و ضبط قائم رکھے، محصولات میں بہتری لائے اور اخراجات میں احتیاط برتے تو معیشت کو استحکام کی جانب واپس لایا جا سکتا ہے۔

رپورٹ میں غربت کی شرح پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ رواں مالی سال میں غربت کی سطح 44 فیصد رہے گی، جو آئندہ مالی سال میں محض ایک فیصد کم ہوکر 43 فیصد تک پہنچے گی۔ ماہرین کے مطابق، غربت میں نمایاں کمی اسی صورت ممکن ہے جب زرعی شعبے کی بحالی، روزگار کے مواقع میں اضافہ اور سماجی تحفظ کے پروگرام مضبوط کیے جائیں۔

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے اصلاحات کا پانچ سالہ منصوبہ نہایت اہم ہے، جس کے تحت ٹیرف میں کمی، برآمدات میں اضافہ، زرعی سرمایہ کاری اور توانائی کے شعبے میں شفافیت لائی جائے گی۔ رپورٹ میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ اگر ان اصلاحات پر سنجیدگی سے عمل کیا گیا تو پاکستان بتدریج معاشی بحران سے نکل سکتا ہے۔

عالمی بینک نے مزید کہا کہ سیلاب نے ملک کی ترقی کی بنیادوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ انفراسٹرکچر، مواصلات، اور دیہی علاقوں کی بحالی کے بغیر ترقی کے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ عالمی منڈی میں تیل کی کم قیمتیں اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر معیشت کے توازن کو کسی حد تک سہارا دے سکتی ہیں۔

عالمی بینک کی رپورٹ پاکستان کے لیے ایک سنگین انتباہ ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ قدرتی آفات کا معاشی اثر صرف وقتی نہیں بلکہ طویل المدتی ہوتا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ زرعی شعبہ نہ صرف غذائی سلامتی بلکہ برآمدات کے استحکام کے لیے بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ فوری ریلیف اقدامات سے آگے بڑھ کر پائیدار ترقی کی حکمتِ عملی اپنائے۔ زرعی زمینوں کی بحالی، فصلوں کی انشورنس، اور موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال جیسے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔

اگر موجودہ حالات میں درست فیصلے نہ کیے گئے تو مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی شرح میں اضافہ ملک کے معاشی ڈھانچے کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر عالمی بینک کی سفارشات پر عمل درآمد یقینی بنایا گیا اور اصلاحات کے تسلسل کو برقرار رکھا گیا تو پاکستان نہ صرف بحران سے نکل سکتا ہے بلکہ ایک مستحکم اور خود کفیل معیشت کی طرف بھی بڑھ سکتا ہے۔