اسلام آباد:اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ 27ویں آئینی ترمیم کو کسی صورت منظور نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں سنگین نتائج سامنے آئیں گے اور ملک کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی۔
تحریک کے صدر محمود خان اچکزئی کی زیرِ صدارت ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ آج کا اجلاس فوری نوعیت کا تھا کیونکہ حالات تشویش ناک رخ اختیار کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے نام پر جو نیا پنڈورا باکس کھولا گیا ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا اس حوالے سے آنے والا ٹویٹ بھی تشویش کا باعث ہے۔ ان کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی بھی اس ’’ڈرامے‘‘ میں شریک ہے۔ ’’فیصلہ تو پہلے ہی ہو چکا ہے، اب صرف عوام کو دکھانے کے لیے کارروائی ہو رہی ہے۔‘‘
اسد قیصر نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے آئین کی بنیاد رکھی، پھر بینظیر بھٹو نے جمہوریت کے لیے جان قربان کی، لیکن آج کی پیپلز پارٹی جمہوریت کو دفن کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کچھ عرصہ پہلے تک ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگا رہے تھے، مگر آج وہ نعرہ کہاں گیا؟ ’’ایسا اقتدار حاصل کرنے کا کیا فائدہ جو صرف پاؤں پکڑنے سے ملے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ نواز شریف خود کو ووٹ کے احترام کا علمبردار سمجھتے تھے مگر آج خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے عمران خان کو اپنی تجاویز بھی بھجوا دی ہیں۔ اگر ملاقات ممکن ہوئی تو اس کی تفصیلات پریس ریلیز کے ذریعے جاری کریں گے۔ ’’ہم ہر حال میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے عوام کے پاس بھی جائیں گے اور پارلیمنٹ میں بھی بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔‘‘
اس موقع پر سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ اب اس بات پر کسی پاکستانی کو شک نہیں رہا کہ ملک میں جبر کا نظام مسلط ہے۔ ’’جو حقوق آئین نے شہریوں کو دیے تھے، وہ سب سلب کر لیے گئے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ہمیں آئینی ترمیم کا علم بلاول بھٹو کی ٹویٹ کے ذریعے ہوا۔ ’’آپ نے آئینی بینچز بناتے وقت کہا تھا کہ اس سے انصاف کی فراہمی بہتر ہوگی، مگر اب آپ ایسی عدالت قائم کرنے جا رہے ہیں جس کی مدتِ وجود ستر سال ہو گی۔‘‘
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ دراصل یہ بتایا جا رہا ہے کہ جو حکومت کو خوش رکھے گا، اس کے لیے راستہ کھلا رہے گا۔ ’’یہ عدلیہ کے ساتھ کھلواڑ ہے، ججوں کی پوسٹنگ اور تبادلے عام بیوروکریسی کی طرح کیے جائیں گے۔ جو جج حکومت کو پسند نہیں آئے گا، اسے دوسری جگہ بھیج دیا جائے گا۔ اس ماحول میں کون سا جج انصاف کے لیے کھڑا ہو گا؟‘‘
انہوں نے کہا کہ کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتا۔ ’’آپ ایک بار پھر انگریزوں کے کالے قوانین واپس لانا چاہتے ہیں جو عدلیہ، میڈیا اور دیگر اداروں کے خلاف استعمال ہوں گے۔‘‘
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی تقرری کے لیے بھی نئی ترامیم لائی جا رہی ہیں، حالانکہ آج الیکشن کمیشن خود ایک مذاق بن چکا ہے۔ ’’جو ٹریبونلز بنائے گئے تھے، آپ نے انہیں ناکارہ کر دیا، اور جو اختیارات صوبوں کو ملے تھے، ان کے کئی محکمے واپس وفاق کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’میں نے کابینہ اجلاس میں بعض وزرا کو روتے دیکھا، مگر افسوس کہ ہم نے تاریخ سے کبھی سبق نہیں سیکھا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’اب یہ خبر بھی دی جا رہی ہے کہ آرٹیکل 243، جس کے تحت آرمی چیف کی تقرری ہوتی ہے، اس میں بھی ترمیم کی جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ملک کا بنیادی ڈھانچہ ہی بدل جائے گا۔‘‘
ان کے مطابق زیرِ غور تجاویز کے مطابق کمانڈر اِن چیف کا ایک نیا عہدہ بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ ’’یہ ملک آپ کس کے حوالے کرنا چاہتے ہیں؟ کہاں گئی سویلین بالادستی کی بات؟‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر یہ ترمیم منظور ہو گئی تو اس کے نتائج اتنے خطرناک ہوں گے کہ ملک کی بنیادیں ہل جائیں گی اور عوام اسے ماننے سے انکار کر دیں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ’’ہم یہ ترمیم منظور نہیں ہونے دیں گے۔ ہم میڈیا، سول سوسائٹی اور مختلف تنظیموں سے رابطے بڑھائیں گے۔ یہ مہینہ ہمارے لیے فیصلہ کن ہے۔ ہمیں اس ناجائز پارلیمان کو یہ قدم اٹھانے سے روکنا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ہم صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ اگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی ملاقات بانی سے ہو جاتی ہے تو ان کی رائے شامل کر کے اگلا لائحہ عمل طے کریں گے۔‘‘
اس موقع پر سابق گورنر سندھ زبیر عمر نے کہا کہ ’’میں میاں نواز شریف سے گزارش کروں گا کہ 26ویں اور 27ویں آئینی ترامیم پر صرف ایک واضح بیان دے دیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ان ترامیم سے اختلاف کریں گے اور اپنے بھائی کو اس اقدام سے روکیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’کل وزیروں کی پریس کانفرنس میں عوام کو کچھ نہیں بتایا گیا۔ گزشتہ 30 سال میں یہ تقریباً 25واں آئی ایم ایف پروگرام ہے۔‘‘
زبیر عمر نے مزید کہا کہ ’’یہ پریس کانفرنس صرف ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے لیے تھی۔ عوام کی مشکلات، مہنگائی، بے روزگاری یا غربت پر کوئی بات نہیں کی گئی۔‘‘