میڈیکل سائنس میں انقلاب، 4000 میل دور بیٹھے ڈاکٹر نے مریض کی کامیاب سرجری کر دی

اسکاٹ لینڈ:میڈیکل سائنس میں ایک انقلابی پیش رفت کے طور پر اسکاٹ لینڈ اور امریکہ کے سرجنز نے دنیا کی پہلی ریموٹ اسٹروک سرجری کامیابی سے مکمل کر لی۔ یہ حیرت انگیز سرجری 4000 میل کے فاصلے پر موجود دو مختلف براعظموں میں انجام دی گئی، جسے ماہرین نے مستقبل کی طب میں ایک نیا باب قرار دیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق، یونیورسٹی آف ڈنڈی کی پروفیسر آئیرس گرنوالڈ نے نائن ویلز اسپتال، ڈنڈی سے ایک پیچیدہ عمل ریموٹ تھرومبیکٹومی (خون کے لوتھڑے کو ہٹانے کا عمل) انجام دیا۔ یہ عمل اسٹروک کے بعد مریض کی جان بچانے میں انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر، سرجری کے دوران استعمال ہونے والا انسانی جسم یونیورسٹی کے دوسرے حصے میں موجود تھا۔

چند گھنٹے بعد، فلوریڈا میں موجود نیوروسرجن ڈاکٹر ریکارڈو ہیئیل نے جیکسن ویل سے روبوٹک نظام کے ذریعے 6,400 کلومیٹر دور ڈنڈی میں ایک انسانی جسم پر دنیا کی پہلی ٹرانس ایٹلانٹک روبوٹک سرجری مکمل کی۔

یہ کامیابی طبی دنیا میں ایک گیم چینجر ثابت ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس ٹیکنالوجی کو کلینیکل سطح پر استعمال کی اجازت دے دی گئی تو یہ اسٹروک کے علاج کے عالمی نظام میں انقلاب لا سکتی ہے، خاص طور پر ان خطوں میں جہاں ماہر نیوروسرجنز کی کمی ہے۔

پروفیسر آئیرس گرنوالڈ نے اسے “سائنس فکشن سے حقیقت کی طرف پہلا قدم” قرار دیتے ہوئے کہا:

“یہ ایسا لمحہ تھا جیسے ہم مستقبل کی پہلی جھلک دیکھ رہے ہوں۔ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ اس سرجری کا ہر مرحلہ اب مکمل طور پر ممکن ہے۔”

یونیورسٹی آف ڈنڈی برطانیہ کا وہ واحد ادارہ ہے جو عالمی فیڈریشن فار انٹرونشنل اسٹروک ٹریٹمنٹ کے لیے تربیتی مرکز کے طور پر تسلیم شدہ ہے۔ یہاں ایسے ماڈلز پر آپریشن کی تربیت دی جاتی ہے جن میں مصنوعی مائع کے ذریعے انسانی خون کے بہاؤ کو نقل کیا جاتا ہے، تاکہ حقیقی سرجری کی مشق ممکن ہو سکے۔

اسٹروک ایسوسی ایشن کی چیف ایگزیکٹیو جولیت بوورئی نے اسے ایک “شاندار اور تاریخی کامیابی” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ:

“کئی سالوں تک دیہی اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے مریضوں کو اسٹروک سرجری جیسی اہم سہولتوں سے محروم رہنا پڑتا تھا، مگر روبوٹک سرجری کے ذریعے اب یہ خلا پُر کیا جا سکتا ہے۔”

تحقیقی ماہرین کے مطابق، اس کامیاب تجربے کے بعد ریموٹ اسٹروک کیئر کے عالمی استعمال کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ماہر ڈاکٹر فوری طور پر کسی بھی مریض کی جان بچانے کے لیے آپریشن کر سکیں گے، بغیر اس کے کہ مریض کو طویل فاصلہ طے کر کے کسی بڑے اسپتال جانا پڑے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت نہ صرف وقت اور فاصلے کی رکاوٹیں ختم کرے گی بلکہ صحت کی سہولیات تک مساوی رسائی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گی۔