عالمی جمہوری نگران ادارے ’’فریڈم ہاؤس‘‘ کی تازہ رپورٹ نے پاکستان میں انٹرنیٹ آزادی کی مجموعی صورتحال پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 100 میں سے 27 اسکور مل سکا، جس کی بنیاد پر ملک کو ’’غیر آزاد‘‘ (Not Free) ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے سنسرشپ بڑھانے کی کوششوں، قوانین میں سخت ترامیم اور آن لائن نگرانی میں اضافے نے انٹرنیٹ کی آزادی کو مزید محدود کر دیا ہے۔
یکم جون 2024 سے 31 مئی 2025 تک کی صورتحال پر مبنی اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان میں ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (VPNs) کی بندش کی بار بار دھمکیاں دی گئیں، جب کہ سائبر کرائم قانون (PECA) میں ایسی مبہم ترامیم متعارف کروائی گئیں جنہیں انسانی حقوق کی تنظیموں نے ’’آسانی سے غلط استعمال‘‘ کے قابل قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کی صورتحال پاکستان کے مقابلے میں کہیں بہتر رہی، جنہیں ’’جزوی طور پر آزاد‘‘ قرار دیا گیا، جہاں انٹرنیٹ آزادی کے اسکور بالترتیب 51، 45 اور 53 رہے۔ افغانستان کا اسکور فراہم نہیں کیا جا سکا۔
درجہ بندی میں سب سے نچلے درجے پر چین اور میانمار (9 اسکور)، ایران (13)، اور روس (17) شامل رہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ پندرہ برسوں میں پاکستان، مصر، روس، ترکیہ اور وینزویلا جیسے ممالک انٹرنیٹ آزادی میں بدترین تنزلی کا شکار ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں حکومتوں نے سیاسی چیلنجز اور عوامی دباؤ کا جواب آن لائن ماحول پر سخت کنٹرول بڑھا کر دیا۔
پاکستان کی انٹرنیٹ آزادی: 2011 سے مسلسل کمی
رپورٹ بتاتی ہے کہ 2011 سے 2015 کے درمیان پاکستان کی انٹرنیٹ آزادی میں نمایاں کمی دیکھی گئی اور ملک کا اسکور 55 سے بڑھ کر 69 تک پہنچ گیا، یعنی آزادی میں مسلسل کمی ہوتی رہی۔ 2012 میں پاکستان کا اسٹیٹس ’’جزوی آزاد‘‘ سے ’’غیر آزاد‘‘ میں تبدیل ہوا—جو پابندیوں کے بڑھنے کا واضح اشارہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستانی صارفین نے انٹرنیٹ کے ناقص معیار، واٹس ایپ، سگنل اور دیگر پلیٹ فارمز تک رسائی میں بار بار رکاوٹوں اور سروس ڈسڑپشنز کی شکایات کیں۔ ماہرین کے مطابق یہ رکاوٹیں ممکنہ طور پر ویب سائٹ مانیٹرنگ اور بلاکنگ کی نئی ٹیکنالوجیز کے نفاذ سے منسلک تھیں۔
گزشتہ برس نومبر میں اسلام آباد میں بڑے عوامی احتجاج کے دوران انٹرنیٹ خدمات محدود کر دی گئی تھیں۔ یہ احتجاج سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے جاری تھا، اور پورے عرصے کے دوران عمران خان جیل میں ہی رہے۔ رپورٹ کے مطابق حساس ادارے پی ٹی آئی اور عمران خان کے ڈیجیٹل اثر کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔
وی پی اینز، پالیسیوں اور ترامیم کے تنازعات
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ مئی 2025 میں حکومت نے ’’ایکس‘‘ (سابقہ ٹوئٹر) کو بحال کیا، جو فروری 2024 سے بلاک تھا۔
حکام نے بارہا خبردار کیا کہ غیر رجسٹرڈ VPNs کو بند کر دیا جائے گا، حتیٰ کہ نومبر 2024 میں جاری کردہ نئی رجسٹریشن شرائط میں صارفین کی ذاتی معلومات فراہم کرنا لازمی قرار دیا گیا۔ تاہم بعد میں وزارتِ قانون نے رائے دی کہ حکومت کے پاس VPN بند کرنے کا قانونی اختیار موجود نہیں۔
جنوری 2025 میں PECA میں کی جانے والی ترامیم میں مبہم زبان استعمال کی گئی، جس کے بارے میں انسانی حقوق گروپس کا کہنا ہے کہ اس سے ناپسندیدہ آن لائن مواد ہٹانے کے اختیارات بے حد بڑھ سکتے ہیں۔
رپورٹ میں یہ سنگین انکشاف بھی شامل ہے کہ رپورٹنگ مدت کے دوران کم از کم پانچ افراد کو مذہبی بنیادوں پر آن لائن مواد پوسٹ کرنے کی وجہ سے سزائے موت سنائی گئی۔
فریڈم آن دی نیٹ 2025: عالمی رجحانات
رپورٹ کے مطابق فریڈم آن دی نیٹ 2025 میں شامل 72 ممالک میں سے 28 میں انٹرنیٹ آزادی مزید خراب ہوئی، جب کہ صرف 17 ممالک نے بہتری کا مظاہرہ کیا۔
دنیا بھر میں انٹرنیٹ آزادی مسلسل 15ویں سال بھی نیچے گئی ہے۔
افریقی ملک کینیا اس عرصے میں سب سے زیادہ متاثر ہوا، جہاں جون 2024 میں ٹیکس اصلاحات کے خلاف شدید احتجاج کے دوران تقریباً 7 گھنٹے تک انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی تھی، اور سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ پر بڑھتی پابندیاں شہری آزادیوں اور جمہوری اظہارِ رائے کے لیے ایک بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہیں، جب کہ ریاستی ادارے اپنی طاقت کے استعمال پر جواب دہ نہیں رہے۔