اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم پر بحث کے دوران تحریک انصاف کے سینیٹرز نے ترمیم کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے “آئین کو دفن کرنے” کے مترادف قرار دیا۔
پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر حامد خان نے کہا کہ 26ویں ترمیم آئین کی موت تھی، جب کہ 27ویں ترمیم اس کی تدفین ہے۔ ان کے مطابق اس ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے پورے نظام کو مفلوج کر دیا گیا ہے اور جن لوگوں نے اسے ووٹ دیا، وہ تاریخ کے سامنے اس کا کوئی جواز نہیں دے پائیں گے۔
سینیٹر زرقا سہروردی نے کہا کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے، خواہ وہ صدر ہو یا وزیرِ اعظم۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عدلیہ کا اختیار چھیننا چاہتی ہے، جو نظامِ انصاف کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے وقت بھی عدلیہ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی تھی۔
سینیٹر اعظم سواتی نے 27ویں آئینی ترمیم کو “کالا بل” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کو سلب کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق “یہ قانون ایک دن ان سب کو ڈسے گا جو آج اس کی حمایت کر رہے ہیں۔”
سینیٹر نور الحق قادری نے کہا کہ حکومت جعلی اکثریت کے بل پر اتنے بڑے آئینی فیصلے نہیں کر سکتی، جبکہ سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ 17 نشستوں والی حکومت کے پاس ایسے اہم فیصلے کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔
سینیٹر محسن عزیز نے حکومت پر زور دیا کہ وہ جلد بازی سے گریز کرے اور ایسی کسی ترمیم کو منظور نہ کرے جس کے طویل المدتی اثرات ملک کے آئینی ڈھانچے کو نقصان پہنچا سکیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ تمام جماعتیں مل بیٹھ کر متفقہ آئینی ترامیم تیار کریں تاکہ پارلیمنٹ کا وقار اور عدلیہ کی خودمختاری برقرار رہے۔
پارلیمانی ذرائع کے مطابق حکومت 27ویں آئینی ترمیم کو جلد ایوانِ بالا میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کے ذریعے عدالتی اختیارات، ججوں کے احتساب کے طریقہ کار، اور آئینی تعیناتیوں کے طریقوں میں تبدیلیاں لانے کی تجویز دی گئی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، اس ترمیم کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی مزاحمت آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیاسی تناؤ میں مزید اضافہ کر سکتی ہے۔