برلن: جرمنی کی صحت کی دنیا میں ایک ایسا سیاہ باب لکھا گیا ہے جہاں ایک پالی ایٹیو کیئر نرس نے اپنے کام کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی ہوس میں 10 مریضوں کو موت کی آغوش میں سلا دیا اور 27 دیگر کو قتل کی کوشش کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں آخن کی عدالت نے اسے عمر قید کی انتہائی سزا سنائی ہے جو جرمن قانون کے تحت ایک نایاب اور سخت فیصلہ ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف طبی پیشے کی اخلاقیات پر ایک گہرا سوال اٹھاتا ہے بلکہ بتاتا ہے کہ جب انسانی ہمدردی کی جگہ ذاتی سہولت لے لیتی ہے تو نتائج کتنے خوفناک ہو سکتے ہیں اور یہ کیس جرمنی کی پوسٹ وار تاریخ کی سب سے ہولناک طبی قتلوں کی یاد دلاتا ہے جہاں ایک نرس نے اپنے ہاتھوں سے زندگیوں کا خاتمہ کر دیا۔ عدالت نے اس جرم کو انتہائی شدید قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ ملزم کو 15 سال بعد بھی ضمانت یا رہائی کی کوئی امید نہیں جو اس کیس کی سنگینی کو مزید اجاگر کرتا ہے اور متاثرین کے خاندانوں کو جزوی تسلی پہنچاتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق استغاثہ نے عدالت کو تفصیل سے بتایا کہ یہ نرس جو 44 سالہ ہے نے زیادہ تر بوڑھے اور نازک صحت کے مریضوں کو سکون آور اور درد کش ادویات جیسے مورفین اور مڈازولام کی حد سے زیادہ مقدار کے انجیکشن لگائے تاکہ رات کی شفٹوں میں ان کی دیکھ بھال کا دباؤ کم ہو اور وہ آرام سے کام کر سکے۔ یہ سب کچھ دسمبر 2023 سے مئی 2024 تک مغربی جرمنی کے شہر ویورسیلن میں واقع ایک پالی ایٹیو کیئر یونٹ میں ہوا جہاں شدید بیمار مریضوں کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہتی تھی اور نرسنگ سٹاف پر دباؤ عروج پر تھا۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ ملزم نے 2007 میں نرسنگ کی تربیت مکمل کی تھی اور 2020 سے اسی ہسپتال میں ملازمت کر رہا تھا جہاں اس کی ذمہ داری ان مریضوں کی دیکھ بھال تھی جو موت کے قریب تھے مگر ابھی زندگی کی امید رکھتے تھے۔ استغاثہ کا مؤقف تھا کہ یہ نرس ان مریضوں سے واضح چڑچڑاپن کا اظہار کرتا تھا جنہیں مسلسل توجہ کی ضرورت ہوتی تھی اور اسے ایک ایسا خبط لاحق تھا جہاں وہ خود کو زندگی اور موت کا مالک سمجھتا تھا جو اس کی ذہنی حالت کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
عدالتی سماعتوں کے دوران یہ بھی سامنے آیا کہ نرس رات کی شفٹوں میں کام کی شدت سے تنگ آ کر مریضوں کو اتنی زیادہ دوائیں دیتا تھا کہ وہ یا تو گہری نیند میں چلے جاتے یا غیر ہوشی کی حالت میں پہنچ جاتے جس سے اسے آرام ملا مگر مریضوں کی جانیں خطرے میں پڑ گئیں۔ دفاع کی جانب سے دلائل دیے گئے کہ ملزم کا ارادہ قتل کا نہیں تھا اور تمام مریض شدید دل کی بیماری یا کینسر جیسے امراض کا شکار تھے جو قدرتی طور پر موت کا سبب بن سکتے تھے مگر عدالت نے استغاثہ کے شواہد کو زیادہ معتبر قرار دیا اور انجیکشنوں کی مقدار اور وقت کی بنیاد پر قتل اور قتل کی کوشش کے الزامات کو ثابت شدہ قرار دیا۔ یہ کیس جرمنی کی صحت کی صنعت میں نگرانی کی کمی کو بھی بے نقاب کرتا ہے جہاں ایک شخص نے برسوں تک اپنے اعمال جاری رکھے اور ہسپتال انتظامیہ کو کوئی شک نہ ہوا جو نظام کی کمزوریوں پر روشنی ڈالتا ہے۔
ملزم کی گرفتاری 2024 میں ہوئی تھی جب ہسپتال میں مشکوک اموات کی تعداد بڑھنے پر تحقیقات شروع ہوئیں اور ابتدائی شواہد نے اسے مورد الزام ٹھہرایا جس کے بعد اسے حراست میں لے لیا گیا۔ عدالت کا فیصلہ اسے اپیل کا حق دیتا ہے جو جرمن قانون کی ایک اہم خصوصیت ہے مگر اس کی شدت کی وجہ سے رہائی کی امید کم ہے۔ حکام نے بتایا کہ ملزم کی پرانی شفٹوں میں مزید مشکوک اموات کی تفتیش جاری ہے اور کئی قبروں کی قبر کشائی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے تاکہ ممکنہ طور پر مزید متاثرین کی نشاندہی کی جا سکے جو اس کیس کو مزید وسیع بنا سکتا ہے اور مستقبل میں نئی سماعتیں جنم لے سکتی ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف انصاف کی راہ ہموار کریں گے بلکہ صحت کے شعبے میں احتیاطی تدابیر کو بھی سخت کرنے کا باعث بنیں گے۔
طبی پیشے میں اخلاقی زوال اور جرمنی کی صحت کی نظام پر اثرات
یہ کیس جرمنی کی پوسٹ وار تاریخ میں طبی قتلوں کی ایک نئی مثال ہے جو 2019 میں نیلز ہوگل کیس کی یاد دلاتا ہے جہاں ایک نرس نے 85 مریضوں کو ہلاک کیا تھا اور یہ دونوں واقعات صحت کی خدمت میں چھپے ہوئے خطرات کو اجاگر کرتے ہیں جہاں کام کا دباؤ اور ذہنی تناؤ ایک شخص کو قاتل بنا سکتے ہیں۔ ایک طرف تو عمر قید کی سزا انصاف کی فتح ہے مگر دوسری طرف یہ سوال اٹھاتی ہے کہ ہسپتالوں میں نگرانی کی کمی اور نرسنگ سٹاف کی ذہنی صحت کی جانچ کیوں ناکافی ہے جو ایسے سانحات کو روکنے میں ناکام ہوئی۔ ملزم کا کام کی آسانی کی خاطر قتل کا ارادہ رکھنا پیشے کی بنیادی اخلاقیات کو چیلنج کرتا ہے اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی صحت کے نظام کی اصلاحات کی ضرورت کو واضح کرتا ہے جیسے دوائیوں کی تقسیم پر کنٹرول اور باقاعدہ نفسیاتی جائزہ جو مستقبل میں ایسے واقعات کو روک سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کیس انسانی ہمدردی کی اہمیت کو یاد دلاتا ہے اور متاثرہ خاندانوں کے لیے ایک تلخ سبق ہے کہ انصاف کبھی دیر سے ملتا ہے مگر ضرور ملتا ہے۔
عوامی رائے سوشل میڈیا اور جرمن فورمز پر شدید غم و غصے اور خوف کی لہر کی شکل اختیار کر چکی ہے جہاں لوگ اسے صحت کی دنیا کا سب سے بڑا دھوکہ قرار دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ نرس جیسا پیشہ جو زندگی بچانے کا ہے وہ موت بانٹنے والا کیسے بن گیا اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ تمام ہسپتالوں میں فوری جائزہ لیا جائے۔ کچھ صارفین ملزم کی ذہنی حالت پر زور دے رہے ہیں کہ کام کا بوجھ اسے پاگل بنا گیا اور نرسنگ سٹاف کی تنخواہ اور کام کے اوقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے جبکہ دیگر اسے انسانی فطرت کی تاریک جہت سمجھتے ہیں جو معاشرے کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ مجموعی طور پر عوام میں مایوسی ہے مگر یہ بھی امید ہے کہ یہ کیس نظام میں تبدیلی لائے گا۔