وہ خالی گاؤں جو دیکھتے ہی دیکھتے قدرت کے قبضے میں چلا گیا

چین میں موجود ایک قدیم گاؤں، جو کبھی زندگی سے بھرپور تھا، آج قدرت کی سبز چادر میں لپٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔مشرقی چین کے ساحلی علاقے زووشان میں واقع ہوٹووان گاؤں کبھی ماہی گیروں کا گاؤں تھا، جہاں 1980 کی دہائی میں تین ہزار سے زیادہ لوگ آباد تھے۔ مگر 1990 کی دہائی میں یہ گاؤں آہستہ آہستہ خالی ہونا شروع ہوا، اور اب یہاں کی تمام عمارتیں سبزے سے ڈھک چکی ہیں  کچھ گھروں پر تو پھولوں نے بھی جگہ بنا لی ہے۔

وقت کے ساتھ اس گاؤں کے بیشتر مکین شہروں کے قریب منتقل ہوگئے، جس کے بعد یہاں گنتی کے چند لوگ ہی رہ گئے۔ ان میں سے ایک معمر شخص لین فیزہان نے ایک امریکی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں بتایا کہ “میں یہاں برسوں سے رہ رہا ہوں، لیکن کبھی کسی بھوت سے نہیں ملا۔”

اب یہی گاؤں ایک مقبول سیاحتی مقام بن چکا ہے۔ یہ ویران مگر دلکش گاؤں شنگھائی سے محض 55 میل کے فاصلے پر ہے، اور اس کی سبز دیواریں دیکھنے والوں کو حیران کر دیتی ہیں۔

یہ گاؤں Shengsi archipelago کے ان 400 سے زائد دیہات میں شامل ہے جو 1990 کی دہائی میں غیر آباد ہوگئے تھے۔ آج یہاں آنے والے سیاح گاؤں کے داخلی دروازے پر لگے بورڈ پر اس کی تاریخ پڑھ سکتے ہیں، جہاں بتایا گیا ہے کہ یہ کبھی “لٹل تائیوان” کے نام سے مشہور ایک پھلتا پھولتا گاؤں تھا۔

ایک دہائی قبل تک حکام کا خیال تھا کہ یہ مقام سیاحوں کے لیے محفوظ نہیں، مگر برسوں کی محنت کے بعد اب اسے عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
2017 میں یہاں ایک پلیٹ فارم بنایا گیا جہاں سے 3 ڈالر فیس کے عوض بلندی سے گاؤں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے، جبکہ 8 ڈالر فیس کے ساتھ گاؤں کی پہاڑیوں پر ہائیکنگ بھی ممکن ہے۔

خالی گھروں کے باہر بورڈز لگائے گئے ہیں جن پر انتباہ درج ہے کہ اندر داخل ہونا خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ عمارتیں منہدم ہو سکتی ہیں۔

یہاں آنے کا بہترین موسم گرما ہے، جب پورا گاؤں ہرے رنگ میں نہایا ہوتا ہے۔
گاؤں کے قریب گیسٹ ہاؤسز بھی بنائے گئے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں چین میں سورج سب سے پہلے طلوع ہوتا ہے۔

2015 میں جب اس گاؤں کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو دنیا بھر کی توجہ اس جانب مبذول ہوگئی، اور تب سے یہ مقام فطرت سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک قدرتی عجوبہ بن چکا ہے۔

ہوٹووان گاؤں اس بات کی علامت ہے کہ جب انسان فطرت سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے تو قدرت خاموشی سے اپنی زمین واپس لے لیتی ہے۔ ویرانی میں چھپی یہ سرسبزی اس سچائی کو ظاہر کرتی ہے کہ فطرت کے سامنے انسان کا وجود عارضی ہے، مگر اس کا حسن دائمی۔