بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں آج ایک اہم سیاسی جلسے کے پیش نظر شہر کی فضائیں کشیدگی سے بھری ہوئی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کی جانب سے ہاکی گراؤنڈ میں منعقد ہونے والے اس جلسے کو روکنے کے لیے ضلعی انتظامیہ نے غیر معمولی اقدامات اٹھائے ہیں۔ شہر بھر کے تمام اہم راستوں کو ٹرکوں اور کنٹینرز کی دیواروں سے بند کر دیا گیا ہے، جبکہ موبائل انٹرنیٹ سروسز کو بھی معطل کر کے مواصلاتی رابطوں پر قدغن لگا دی گئی ہے۔
انتظامیہ کا مؤقف واضح ہے: سیکیورٹی خدشات کی بنیاد پر جلسے کی اجازت مسترد کر دی گئی ہے، اور وہ کسی بھی صورت میں اسے ہونے نہیں دیں گے۔ صوبے بھر میں ایک ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے، جس کے تحت عوامی اجتماعات پر مکمل پابندی عائد ہے۔ شہر کے چپے چپے پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، جو کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لیے الرٹ ہے۔ سیکیورٹی فورسز کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے، اور شہریوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
یہ سخت گیر اقدامات شہری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ اہم شاہراہیں اور چوراہے مکمل طور پر بند ہونے سے ٹریفک کا بدترین جام پیدا ہو گیا ہے، جہاں لوگ گھنٹوں پھنس کر رہ گئے۔ خاص طور پر طلبہ و طالبات کو شدید مشکلات کا سامنا ہے؛ بہت سے تعلیمی اداروں تک نہ پہنچ سکے، جس سے کلاسز اور امتحانات متاثر ہوئے۔ انٹرنیٹ کی معطلی نے روزمرہ امور، کاروبار اور مواصلات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
دوسری جانب، پی ٹی آئی کی قیادت نے نہتے ارادے کا اظہار کیا ہے کہ وہ ہر صورت ہاکی گراؤنڈ میں جلسہ منعقد کریں گے۔ پارٹی ترجمان کے مطابق، یہ اجتماع آئین کی بالادستی، جمہوری حقوق کی بحالی اور عوامی آواز کو بلند کرنے کے لیے ہے۔ انتظامیہ کی پابندیوں کے باوجود، وہ اپنے منصوبے پر ڈٹ کر عمل کریں گے۔
یہ تمام صورتحال کوئٹہ کو سیاسی تناؤ کے ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کر رہی ہے، جہاں پی ٹی آئی کی ملک گیر احتجاجی تحریک کا سلسلہ جاری ہے۔ شہر کی سڑکیں خاموش ضرور ہیں، مگر دلوں میں ایک طوفان اٹھ رہا ہے – جمہوریت اور سیکیورٹی کے درمیان یہ کشمکش ابھی ختم ہونے والی نہیں۔