کراچی میں ذہنی امراض سے متعلق 26ویں بین الاقوامی کانفرنس کے دوران انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 10 فیصد افراد منشیات کے استعمال کے عادی ہیں، جب کہ گزشتہ سال تقریباً ایک ہزار افراد نے ذہنی دباؤ کے باعث خودکشی کی۔
کانفرنس کی سائنٹیفک کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں ہر تین میں سے ایک شخص (تقریباً 34 فیصد) کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے، جب کہ عالمی سطح پر ہر پانچ میں سے ایک فرد ذہنی یا نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین میں ڈپریشن اور انزائیٹی کے کیسز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ خواتین کو معاشرے میں وہ مقام اور سہولتیں حاصل نہیں جو ان کا حق ہیں۔ گھریلو ناچاقی اور سماجی دباؤ کے باعث خواتین مسلسل ذہنی تناؤ کا شکار رہتی ہیں۔
پروفیسر اقبال آفریدی نے بتایا کہ نوجوانوں میں منشیات، بالخصوص “آئس” کے بڑھتے ہوئے استعمال نے بھی ذہنی امراض کے پھیلاؤ میں اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں زلزلے، سیلاب، اور دہشت گردی جیسے واقعات نے عوام کے ذہنوں پر گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں، جو بالآخر مختلف نفسیاتی بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔
پاکستان سائیکیٹری سوسائٹی کے صدر پروفیسر واجد علی اخوندزادہ کے مطابق ملک میں ہر چار میں سے ایک نوجوان اور ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی ذہنی یا نفسیاتی مسئلے کا شکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کم از کم 25 لاکھ افراد ذہنی امراض میں مبتلا ہیں، اور یہ وہ خاندان ہیں جو معاشی مشکلات، سیاسی بے یقینی، قدرتی آفات، اور دیگر دباؤ کے باعث نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوئے ہیں۔
پروفیسر واجد نے مزید بتایا کہ ملک میں ذہنی صحت کے حوالے سے سہولیات انتہائی ناکافی ہیں۔ 24 کروڑ کی آبادی کے لیے صرف 90 ماہرِ نفسیات موجود ہیں، جب کہ عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق ہر 10 ہزار افراد پر ایک ماہرِ نفسیات ہونا چاہیے۔ اس وقت پاکستان میں تقریباً 5 لاکھ 500 مریضوں کے لیے صرف ایک ماہرِ نفسیات دستیاب ہے، جو انتہائی تشویشناک ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں 10 فیصد آبادی منشیات کی عادی ہے، اور گزشتہ سال تقریباً ایک ہزار افراد نے ذہنی دباؤ کے باعث اپنی جان لی۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر افضال جاوید اور دیگر ماہرینِ نفسیات نے کہا کہ ملک کو اس وقت معاشی ناہمواری، قدرتی آفات، بے روزگاری، اور سرحدی تنازعات جیسے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، جنہوں نے عوام کی ذہنی صحت پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔
ان ماہرین کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں نوجوان نسل شدید مایوسی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان تمام حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر ذہنی صحت کے فروغ کے لیے جامع پالیسی مرتب کرے تاکہ عوام، خصوصاً نوجوان، اس بحران سے نکل سکیں۔
ماہرین نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ پاکستان میں جنگلات کا مجموعی رقبہ صرف 4 فیصد ہے، جو خطرناک حد تک کم ہے۔ اس کمی کے باعث موسمیاتی تبدیلیاں اور ماحولیاتی مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں، جو بالآخر انسانی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔