لاہور:رات گئے پولیس نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مرکزی دفتر پر چھاپہ مارا تاکہ تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کو گرفتار کیا جا سکے، تاہم کارروائی کے دوران صورتحال شدید کشیدگی اختیار کر گئی۔ذرائع کے مطابق چھاپے کے دوران پارٹی کے درجنوں کارکنوں نے پولیس کی مزاحمت کی اور موقع پر موجود اہلکاروں پر پتھروں اور لوہے کی سلاخوں سے حملہ کیا۔ حملے میں تین پولیس کانسٹیبل زخمی ہو گئے جبکہ علاقے میں بھگدڑ مچ گئی۔
جوابی کارروائی کے طور پر پولیس نے آنسو گیس کے شیل فائر کیے جس کے باعث ملتان روڈ کا علاقہ مکمل طور پر میدانِ جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔ قریب موجود دکانداروں اور رہائشیوں کو بھی گھروں میں پناہ لینا پڑی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹی ایل پی کارکن آنسو گیس کے بادلوں کے درمیان پیچھے ہٹ رہے ہیں، جبکہ دیگر فوٹیجز میں استعمال شدہ گولیوں کے خول اور خالی گیس شیل دکھائے جا رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ چھاپہ اُس وقت مارا گیا جب تحریک لبیک نے جمعہ کے روز اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے سامنے اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف بڑے احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد اسلام آباد انتظامیہ نے فیض آباد انٹرچینج پر حفاظتی اقدامات کے طور پر کنٹینرز لگا دیے ہیں۔
دوسری جانب، ٹی ایل پی کی قیادت نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ پولیس ان کے متعدد رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر رہی ہے اور مختلف شہروں میں گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ تنظیم کے حامی بڑی تعداد میں لاہور پہنچ چکے ہیں اور بعض نے شہر کے مختلف مقامات پر عارضی کیمپ بھی قائم کر رکھے ہیں۔ چھاپے کے دوران جب پولیس پارٹیوں نے مرکزی دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی تو کارکنوں نے مزاحمت کرتے ہوئے پتھروں، ڈنڈوں اور لوہے کی سلاخوں سے اہلکاروں کو پیچھے دھکیل دیا۔
حکام کے مطابق، علاقے میں امن و امان کی صورتحال قابو میں لانے کے لیے اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے اور پولیس کی اعلیٰ قیادت نے ہدایت جاری کی ہے کہ حالات مزید بگڑنے نہ پائیں۔
تحریک لبیک پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان یہ تازہ تصادم ایک بار پھر مذہبی سیاست اور ریاستی عملداری کے درمیان بڑھتے تناؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ سعد رضوی کی گرفتاری کی کوشش ایسے موقع پر ہوئی جب تنظیم نے ایک بین الاقوامی مسئلے پر احتجاج کی کال دی تھی۔ ایسے حالات میں ریاست اور مذہبی جماعتوں کے درمیان ٹکراؤ نہ صرف سیاسی فضا کو کشیدہ بناتا ہے بلکہ عام شہریوں کی روزمرہ زندگی پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ حکومت کے لیے یہ لمحہ غور طلب ہے کہ انتظامی فیصلے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کس طرح کیے جائیں تاکہ حالات مزید بگڑنے کے بجائے بہتر سمت اختیار کریں۔