8اکتوبر 2005 کے زلزلے کو 20 سال بیت گئے، متاثرین آج بھی مسائل کا شکار

مظفرآباد :آزاد جموں و کشمیر میں آج 8 اکتوبر 2005 کے قیامت خیز زلزلے کو بیس سال مکمل ہو گئے، مگر دو دہائیاں گزر جانے کے باوجود تعمیراتی نظام، شہری منصوبہ بندی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری کے شعبوں میں بہتری کا عمل تاحال ادھورا ہے۔ اس زلزلے نے صرف زمین ہی نہیں ہلائی تھی بلکہ ایک پوری نسل کے خواب، گھر اور مستقبل بھی ملبے تلے دفن کر دیے تھے۔

8 اکتوبر 2005 کو صبح 8 بج کر 52 منٹ پر آنے والے 7.6 شدت کے زلزلے نے آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا کے متعدد علاقوں کو تباہ کر دیا۔ دارالحکومت مظفرآباد، باغ، راولاکوٹ، اور بالاکوٹ میں لمحوں میں بستیاں ملبے میں بدل گئیں۔ صرف آزاد کشمیر میں 46 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، ہزاروں زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو گئے۔

زلزلے کے دوران بالاکوٹ شہر، جو دریائے کنہار کے کنارے اپنی خوبصورتی کے باعث مشہور تھا، مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ ماہرین کے مطابق اموات کی ایک بڑی وجہ ناقص تعمیرات اور تعمیراتی قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا تھی۔ اسکول، کالجز، سرکاری عمارات اور ہسپتال زمین بوس ہوئے، جن میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔

حکومتِ پاکستان اور عالمی برادری کی امداد سے تعمیرِ نو کا عمل اگرچہ شروع کیا گیا، لیکن بیس سال گزرنے کے باوجود یہ عمل مکمل نہیں ہو سکا۔ آج بھی مظفرآباد سمیت کئی علاقوں میں زلزلہ متاثرین بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ لنگر پورہ اور ٹھوٹھہ کے علاقوں میں متاثرین کے لیے نئی بستیوں کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر چند گھر تعمیر ہونے کے بعد یہ منصوبے بھی ادھورے رہ گئے۔

ماہرینِ ارضیات کے مطابق اس سانحے کے بعد پاکستان کو جدید زلزلہ مزاحم تعمیراتی اصول اپنانے چاہییں تھے، مگر افسوس کہ غیر معیاری تعمیرات آج بھی جاری ہیں۔ برساتی نالوں میں پختہ مکانات تعمیر کیے جا رہے ہیں، جس سے مستقبل میں مزید خطرات جنم لے سکتے ہیں۔

آزاد کشمیر کے عوام کے لیے 8 اکتوبر کا دن محض ایک تاریخ نہیں بلکہ یادوں، آنسوؤں اور اجتماعی دکھ کا استعارہ بن چکا ہے۔ ہر سال اس دن شہداء زلزلہ کی یاد میں دعائیہ تقاریب، واکس اور سائرن بجا کر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔

اسی تسلسل میں آج مظفرآباد یونیورسٹی گراؤنڈ میں مرکزی تقریب منعقد ہوئی، جس میں وزرائے حکومت، چیف سیکرٹری، پولیس اور ریسکیو 1122 کے دستوں نے شرکت کی۔ 8 بج کر 52 منٹ پر سائرن بجایا گیا اور شہداء کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ بعد ازاں یادگارِ شہداء پر پھول چڑھائے گئے اور شہداء کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی گئی۔

دوسری جانب میرپور میں بھی شہداء کی یاد میں دعائیہ تقریب اور واک کا اہتمام کیا گیا۔ واک میں 8 اکتوبر کے زلزلے سے یتیم ہونے والے بچوں سمیت کمشنر میرپور مختار حسین، سیاسی و سماجی شخصیات اور طلباء کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کمشنر میرپور نے اپنے خطاب میں کہا کہ “8 اکتوبر کا دن آزاد کشمیر کی تاریخ کا المناک باب ہے جس نے ہزاروں خاندانوں کو متاثر کیا۔ ہمیں اس دن سے یہ سبق لینا چاہیے کہ قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے منصوبہ بندی، تیاری اور اجتماعی تعاون ناگزیر ہیں۔”

زلزلہ کی بیسویں برسی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اگرچہ وقت مرہم ضرور لگاتا ہے مگر زخم کبھی مکمل مندمل نہیں ہوتے۔ ہزاروں شہداء کے اہلِ خانہ آج بھی اس دن کو آنسوؤں، دعاؤں اور یادوں کے ساتھ مناتے ہیں۔

یہ سانحہ پاکستان کی تاریخ میں نہ صرف تباہی بلکہ اجتماعی بیداری کی علامت بھی ہے — ایک ایسا سبق جو بتاتا ہے کہ قدرتی آفات کو روکا تو نہیں جا سکتا، مگر ان کے اثرات کم ضرور کیے جا سکتے ہیں اگر قوم یکجا ہو کر سنجیدگی سے تیاری کرے۔