اسلام آباد: پاکستان ریلوے کے حادثات کی وجوہات اور اصلاحاتی منصوبوں پر جامع رپورٹ سامنے آگئی ہے۔
گزشتہ تین برسوں کے دوران ریلوے کے نظام میں انسانی غفلت اور تکنیکی خرابیوں کی نشاندہی ہوئی ہے، جس نے نہ صرف قیمتی جانوں اور اثاثوں کو نقصان پہنچایا بلکہ ادارے کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھا دیے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق یکم جولائی 2021 سے 30 جون 2024 کے دوران پاکستان ریلوے میں مجموعی طور پر 113 حادثات پیش آئے، جن میں سے 36 حادثات انسانی غلطیوں جب کہ 77 حادثات تکنیکی خرابیوں کے باعث رونما ہوئے۔ ان اعداد و شمار نے اس امر کو واضح کر دیا ہے کہ ریلوے کے نظام میں بہتری کے لیے نہ صرف مشینری بلکہ افرادی تربیت میں بھی بڑے پیمانے پر اصلاحات ناگزیر ہیں۔
خطرناک پھاٹک اور سیکیورٹی صورتحال
دستاویز کے مطابق ملک بھر میں 536 خطرناک ریلوے پھاٹکوں میں سے صرف 168 پھاٹک اب تک اپ گریڈ کیے جا سکے ہیں، جب کہ باقی پھاٹک عوامی و ٹرین سلامتی کے لیے اب بھی سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
اسی مدت میں پاکستان ریلوے نے 6 ہزار 49 مال گاڑیاں چلائیں، جو ریلوے کے آپریشنل پہلو میں بہتری کا مظہر ضرور ہے مگر حفاظتی اقدامات کی کمی اس کارکردگی کو متاثر کر رہی ہے۔
ٹریک اور پلوں کی بحالی کی لاگت
دستاویز میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ریلوے کی 6 پٹریوں کی مکمل مرمت پر 31 ارب روپے کی خطیر لاگت آئے گی۔
اعداد و شمار کے مطابق ایک پٹری کی بحالی پر 20 لاکھ روپے فی کلومیٹر خرچ ہوں گے، جب کہ کمزور اور پرانے پلوں کی مرمت کے لیے 98 کروڑ روپے درکار ہوں گے۔
یہ تخمینے واضح کرتے ہیں کہ ریلوے کے بنیادی ڈھانچے کی بحالی اب محض ایک مرمتی کام نہیں بلکہ ایک بڑے مالی اور انتظامی چیلنج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
نئے ترقیاتی منصوبے
حادثات کی روک تھام اور ٹریک کی بہتری کے لیے حکومت نے آئندہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں کئی اہم منصوبے شامل کیے ہیں۔
ان منصوبوں میں:
حیدرآباد تا نیو چھور سیکشن کی بحالی کے لیے 19 ارب روپے،
لاہور تا لالہ موسیٰ اور راولپنڈی سیکشن کے لیے 5 ارب روپے،
ٹریک مشینوں کی خریداری کے لیے 12 ارب روپے،
اور چائنہ کریک پل کی دوبارہ تعمیر کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
یہ منصوبے ریلوے کے بنیادی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی جانب اہم قدم ہیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ محض منصوبہ بندی سے نہیں بلکہ ان پر بروقت اور شفاف عمل درآمد سے ہی حادثات کی شرح میں کمی ممکن ہے۔
صوبائی سطح پر اپ گریڈیشن
ریلوے حکام کے مطابق آئندہ مرحلے میں پورے ملک کے ٹریکس کو مرحلہ وار جدید بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
اس کے تحت:
پنجاب میں 1414 کلومیٹر،
سندھ میں 960 کلومیٹر،
خیبرپختونخوا میں 173 کلومیٹر،
اور بلوچستان میں 33 کلومیٹر ٹریک اپ گریڈ کیے جائیں گے۔
یہ منصوبہ نہ صرف ریلوے کی کارکردگی بہتر کرے گا بلکہ عوامی تحفظ اور وقت کی پابندی کو بھی یقینی بنائے گا۔
ماہرین کی آراء
ریلوے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ریلوے کے حادثات میں کمی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ٹرین ڈرائیورز، سگنل اسٹاف اور ٹیکنیکل عملے کی باقاعدہ تربیت کی جائے۔
انسانی غلطی کو کم کرنے کے لیے جدید ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم، خودکار سگنلنگ، اور انٹیلی جنٹ وارننگ میکانزم متعارف کرانا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔
ماہرین نے تجویز دی ہے کہ ریلوے کے پرانے انجنوں اور بوگیوں کو جدید ماڈلز سے تبدیل کیا جائے تاکہ حادثات کے امکانات مزید کم کیے جا سکیں۔
شفافیت اور نگرانی کی ضرورت
پاکستان ریلوے کے ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی اس وقت ہی ممکن ہے جب ان میں شفافیت اور تکنیکی نگرانی کے معیارات کو سختی سے لاگو کیا جائے۔
پچھلے ادوار میں منصوبہ بندی کے باوجود اکثر فنڈز کے غلط استعمال اور تاخیر کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں، جنہوں نے ادارے کی ساکھ کو متاثر کیا۔
ماہرین کے مطابق، اگر حکومت اس بار بروقت فنڈز ریلیز کرے اور نگرانی کا نظام مضبوط بنائے تو آنے والے چند برسوں میں ریلوے کا منظرنامہ نمایاں طور پر بہتر ہو سکتا ہے۔