وزن کم نہ کرنے والوں کی نوکریاں خطرے میں، اہم وارننگ جاری

لندن: برطانیہ میں بحیرہ شمال میں تیل کے کنوؤں پر کام کرنے والے مزدوروں کو ایک غیر معمولی وارننگ جاری کی گئی ہے — اگر انہوں نے اپنا وزن کم نہ کیا تو وہ اگلے سال سے آف شور پلیٹ فارم تک جانے کے اہل نہیں رہیں گے، جس کا مطلب ہے کہ ان کی نوکریاں داؤ پر لگ سکتی ہیں۔

برطانوی توانائی کمپنی آف شور انرجیز یو کے (OEUK) نے اعلان کیا ہے کہ نومبر 2026 سے ہر وہ مزدور جو سمندر میں موجود تیل کے پلیٹ فارم پر کام کرتا ہے، اُس کا زیادہ سے زیادہ وزن کپڑوں سمیت 124.7 کلوگرام ہونا چاہیے۔ کمپنی کے مطابق یہ فیصلہ حفاظتی بنیادوں پر کیا گیا ہے تاکہ ہنگامی صورتحال میں مزدوروں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بحفاظت منتقل کیا جا سکے۔

برطانوی کوسٹ گارڈ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریسکیو ہیلی کاپٹرز پر نصب وِنچز (Winches) ایک وقت میں 249 کلوگرام وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس وزن میں ایک ریسکیو ورکر (90.3 کلوگرام)، ایک اسٹریچر (29 کلوگرام) اور بچاؤ کا سامان (5 کلوگرام) بھی شامل ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر مزدور کا وزن حد سے بڑھ گیا تو ریسکیو آپریشن میں خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔

OEUK کے ترجمان کے مطابق، اس وقت 2,200 سے زائد مزدور ایسے ہیں جن کا وزن مقررہ حد سے تجاوز کر چکا ہے، اور اگر انہوں نے وزن کم نہ کیا تو انہیں پلیٹ فارم تک رسائی نہیں دی جائے گی — یعنی بالآخر ملازمت سے محرومی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ نئی پالیسی دراصل میرٹائم اینڈ کوسٹ گارڈ ایجنسی (MCA) کی جانب سے جاری کی گئی ایک وارننگ کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ ریسکیو وِنچز بھاری وزن محفوظ طریقے سے نہیں اٹھا سکتیں، جس سے کسی ایمرجنسی کے دوران سنگین حادثات پیش آ سکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 2008 کے بعد سے آف شور مزدوروں کا اوسط وزن 10 کلوگرام تک بڑھ چکا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ نہ صرف طرزِ زندگی کی تبدیلی کی علامت ہے بلکہ جسمانی فٹنس کے معیار میں کمی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

توانائی کے ماہرین کے مطابق، یہ پالیسی مزدوروں کے لیے ایک “وزن کنٹرول چیلنج” ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ سمندری پلیٹ فارمز پر کام کرنے والے افراد طویل اوقات میں محدود جسمانی سرگرمی کرتے ہیں اور ان کی خوراک بھی اکثر غیر متوازن ہوتی ہے۔ تاہم کمپنیوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام مزدوروں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، کیونکہ ریسکیو آپریشن کے دوران ایک چھوٹی سی تکنیکی رکاوٹ بھی قیمتی جانوں کے ضیاع کا باعث بن سکتی ہے۔

برطانوی مزدور یونینز نے اس فیصلے پر ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ کچھ نمائندوں نے کہا ہے کہ یہ اقدام “حفاظت کے لیے ناگزیر” ہے، جبکہ دیگر نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “وزن کی بنیاد پر نوکریاں چھیننا” انسانی حقوق کے منافی ہے۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو مزدوروں کے لیے فٹنس پروگرامز، ورزش کی سہولتیں اور صحت مند خوراک کے منصوبے فراہم کرنے چاہییں تاکہ وہ قدرتی طور پر وزن کم کر سکیں۔

یہ معاملہ اب برطانیہ میں صحت، حفاظت اور روزگار کے توازن پر ایک نئی بحث کو جنم دے چکا ہے — کیا جسمانی وزن روزگار کے حق میں رکاوٹ بن سکتا ہے؟ آنے والے مہینے اس سوال کا عملی جواب دیں گے۔