آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کیلئے عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کا فیصلہ

اسلام آباد:پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو یقین دہانی کرائی ہے کہ فاضل بجٹ (Primary Surplus) کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے 200 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات کیے جائیں گے۔

ذرائع کے مطابق یہ اقدامات جنوری میں نافذ کیے جائیں گے، جن کے تحت لینڈ لائن، موبائل فونز اور بینکوں سے کیش نکلواتے وقت ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں، سولر پینلز پر سیلز ٹیکس اور بسکٹس و مٹھائیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔

حکومت آئی ایم ایف کو سالانہ پرائمری بجٹ سرپلس کے ہدف میں کمی پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو اس وقت جی ڈی پی کے 1.6 فیصد، یعنی 21 کھرب روپے کے برابر ہے۔ تاہم حالیہ مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا، البتہ وعدہ کیا کہ سیلابی نقصانات کے حتمی تخمینے کے بعد نظرِ ثانی ممکن ہوگی۔

ذرائع کے مطابق ستمبر میں اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے مالی شرائط میں نرمی کی درخواست کی تھی۔

اگر آئی ایم ایف پرائمری سرپلس میں کمی پر رضامند نہ ہوا تو حکومت کے پاس دو راستے ہوں گے: یا تو اضافی ٹیکس اقدامات نافذ کیے جائیں یا اخراجات میں کٹوتی کی جائے۔

فی الوقت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو 198 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے۔ 29 اکتوبر تک محصولات کی وصولی 36.5 کھرب روپے رہی، جبکہ چار ماہ کا ہدف پورا کرنے کے لیے دو روز میں مزید 460 ارب روپے جمع کرنا ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق 200 ارب روپے کے اضافی محصولات میں سے نصف رقم جنوری تا جون 2026 کے دوران حاصل ہونے کی توقع ہے۔ حتمی منظوری کے بعد حکومت کیش نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح تقریباً دوگنا کرکے 1.5 فیصد کر سکتی ہے، جس سے نان فائلرز سے 30 ارب روپے اضافی حاصل ہوں گے۔

مزید بتایا گیا کہ لینڈ لائن سروس پر ودہولڈنگ ٹیکس 10 سے بڑھا کر 12.5 فیصد کرنے سے 20 ارب روپے، جبکہ موبائل فونز پر ودہولڈنگ ٹیکس 15 سے 17.5 فیصد کرنے سے 24 ارب روپے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

حکومت کی ترجیحات میں سولر پینلز سے بجلی پیداوار میں توازن لانا بھی شامل ہے، جس کے لیے پینلز پر سیلز ٹیکس کی شرح 10 سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ اسی طرح بسکٹوں اور مٹھائیوں پر 16 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے، جس سے سالانہ 70 ارب روپے کی اضافی آمدن متوقع ہے۔

ٹیکس حکام کے مطابق اگر 225 ارب روپے کے اضافی ریونیو کی ضرورت پیش آئی تو حکومت کے پاس تین آپشنز ہوں گے: سیلز ٹیکس کی شرح 19 فیصد تک بڑھانا، یا ودہولڈنگ ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرنا، تاکہ آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط برقرار رہیں۔

تاہم رپورٹ کے مطابق ان مجوزہ اقدامات کا بوجھ ایک بار پھر اُن ہی طبقات پر پڑے گا جو پہلے ہی بھاری ٹیکسوں تلے دبے ہوئے ہیں، جبکہ ٹیکس بیس میں وسعت دینے کے تمام منصوبے اب تک صرف فائلوں تک محدود ہیں۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب سندھ اور پنجاب حکومتوں نے زرعی ٹیکس کی 45 فیصد اضافی شرح کے ساتھ وصولی کو ایک سال کے لیے مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ایف بی آر دسمبر تک ہدف حاصل نہ کر سکا یا اخراجات میں کمی ممکن نہ ہوئی تو حکومت اضافی ریونیو اقدامات کے لیے تیار ہے۔
ان یقین دہانیوں کے بعد دوسرے جائزہ اجلاس کے اختتام پر اسٹاف لیول معاہدے (Staff-Level Agreement) کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔

رابطہ کرنے پر ایف بی آر حکام نے اس معاملے پر کسی بھی سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔