اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ میں وفاقی دارالحکومت کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے مسئلے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ اسلام آباد کے تقریباً 1400 تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام اور چیکنگ کے لیے صرف 3 افراد تعینات ہیں، جو عملی طور پر نہ ہونے کے برابر ہے۔
عدالت میں یہ بھی بتایا گیا کہ عدالتی حکم کے باوجود آئی جی اسلام آباد اور متعلقہ اداروں کے درمیان منشیات کے خاتمے کا فریم ورک بنانے کے لیے میٹنگ نہیں ہو سکی۔ سماعت کے دوران جسٹس راجا انعام امین منہاس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیسے امن و امان کی صورتحال اہم ہے ویسے ہی منشیات کا پھیلاؤ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کے لیے اقدامات ہو بھی رہے ہیں، تب بھی عدالتی کچہری میں دھماکا ہو جاتا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ موجودہ سیکیورٹی صورتحال کے باعث آئی جی اسلام آباد مصروف تھے، تاہم جلد میٹنگ کر لی جائے گی۔ جسٹس راجا انعام نے ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب صرف ایک گھنٹہ نکال کر متعلقہ حکام سے ملاقات کریں تاکہ مؤثر حکمتِ عملی بن سکے۔
عدالت نے پرائیویٹ اسکول ریگولیٹری اتھارٹی (پیرا) سے استفسار کیا کہ اب تک منشیات کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ پیرا کے نمائندے نے بتایا کہ اسلام آباد میں 1400 سے زائد ادارے ہیں، لیکن چیکنگ کے لیے صرف تین افراد موجود ہیں۔ اس پر عدالت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس رفتار سے تو تمام اداروں کی مکمل چیکنگ میں چار سال لگ جائیں گے۔
عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی کہ وہ اے این ایف، پیرا، پرائیویٹ اسکول اتھارٹی اور دیگر اداروں کے ساتھ دو ہفتوں کے اندر میٹنگ کر کے ایک مؤثر فریم ورک تشکیل دیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔