نیویارک:اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے پاکستان میں پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی حراست کے حالات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کو جیل میں ایسے حالات میں رکھا جا رہا ہے جو غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ عالمی انسانی حقوق کے اصولوں اور معیار کی مکمل تعمیل کو یقینی بنائیں۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق ستمبر میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کے خطرات کے پیش نظر قانونی ٹیم نے اقوام متحدہ کے نمائندے سے رابطہ کیا تھا۔ اس دوران خصوصی نمائندے نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ فوری اور مؤثر اقدامات کے ذریعے اس صورتحال کو کنٹرول کریں۔
تاہم وزیراعظم کے معاون رانا احسان افضل نے اقوام متحدہ کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو جیل کے قوانین اور جیل مینوئل کے مطابق رکھا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق، ’ان کے بچوں کو با آسانی ملاقات کی اجازت ہے، کال کے اوقات طے کیے جا سکتے ہیں اور حکومت کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ پی ٹی آئی کے بانی کو بی کلاس قیدی کی حیثیت سے معمول سے زیادہ سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، ’انہیں ورزش، اچھا کھانا اور مناسب جگہ دستیاب ہے۔‘
اقوام متحدہ کی عہدیدار ایلس جِل ایڈورڈز نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ 73 سالہ عمران خان کی حراست کے حالات پر فوری کارروائی کرے۔ انہوں نے کہا کہ 26 ستمبر 2023 کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل ہونے کے بعد سے عمران خان کو مبینہ طور پر حد سے زیادہ قید تنہائی میں رکھا گیا، انہیں دن کے 23 گھنٹے سیل میں رکھا جاتا رہا اور بیرونی دنیا تک ان کی رسائی انتہائی محدود رکھی گئی، ساتھ ہی سیل کی مسلسل کیمرے سے نگرانی کی گئی۔
ایلس جِل ایڈورڈز نے واضح کیا کہ ’عمران خان کی قید تنہائی کو بلا تاخیر ختم کیا جانا چاہیے۔‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ خصوصی نمائندے آزاد حیثیت رکھنے والے ماہرین ہوتے ہیں جن کے پاس انسانی حقوق کونسل کا مینڈیٹ ہوتا ہے، اور وہ اقوام متحدہ کی طرف سے براہِ راست بات نہیں کرتے۔
دوسری جانب، عمران خان کے حامیوں کا الزام ہے کہ وکلا اور اہل خانہ کو ان سے ملاقات سے روکا جا رہا ہے۔ اس کے خلاف جیل کے باہر کئی مرتبہ احتجاج اور دھرنے بھی دیے گئے، جو سیاسی اور عوامی سطح پر تشویش کا باعث بنے ہیں۔