اسلام آباد:ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان شدید پانی کے بحران کا سامنا کر رہا ہے، اور ملک کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ بینک کے مطابق واٹر سیکیورٹی کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں، جبکہ پاکستان میں پالیسیاں مضبوط ہونے کے باوجود عمل درآمد بہت کمزور اور سست ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی تازہ رپورٹ ’’ایشین واٹر ڈیولپمنٹ آؤٹ لک 2025ء‘‘ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کی کمی انتہا کو پہنچ گئی ہے اور ذخائر کی کمی تیز رفتار سے جاری ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی آج بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ ملک میں فی کس پانی کی دستیابی 3500 مکعب میٹر سے کم ہو کر صرف 1100 مکعب میٹر رہ گئی ہے۔ زیر زمین پانی کے بے دریغ استعمال سے زہریلا آرسینک پھیل رہا ہے، جبکہ ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتی آبادی اور ناقص مینجمنٹ بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔ زرعی شعبہ پانی کے ضیاع میں سب سے آگے ہے۔
رپورٹ کے مطابق واٹر سیکیورٹی کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں۔ پاکستان میں پالیسیاں مضبوط ہیں لیکن عمل درآمد سست ہے، مالی وسائل کی کمی ہے، اور واٹر سیکٹر میں اصلاحات اور سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ اگلی دہائی میں پانی کے شعبے کے لیے 10 سے 12 ٹریلین روپے درکار ہوں گے، جبکہ موجودہ سرمایہ کاری ناکافی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2022ء کے سیلاب نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا، اور پاکستان اب بھی سیلاب اور خشک سالی کے خطرات کا شکار ہے۔ ایس ڈی جیز کے اہداف پورے کرنے کے لیے سالانہ 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ ناقص پانی اور صفائی کے نظام کی وجہ سے ملک کو ہر سال 2.2 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں اربن فلڈنگ اور گندے پانی کا اخراج بڑے چیلنج ہیں۔ دیہی علاقوں میں پانی کی رسائی کم ہے، آلودگی اور نگرانی کے مسائل برقرار ہیں، جبکہ شہری پانی کا انفراسٹرکچر کمزور ہے اور گندا پانی بغیر ٹریٹمنٹ کے خارج ہو رہا ہے۔ صنعتی شعبہ تقریباً مکمل طور پر زیر زمین پانی پر انحصار کرتا ہے، پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ناکافی ہے، اور پرانا نظام بحران کو مزید بڑھا رہا ہے۔ آبی ماحولیاتی نظام بگڑ رہا ہے، دریاؤں اور ویٹ لینڈز پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کا واٹر سیکیورٹی اسکور 2013ء کے مقابلے میں 2025ء میں 6.4 پوائنٹس بہتر ہوا ہے، تاہم پانی کے شعبے میں ٹیکنیکل صلاحیت اور کوآرڈینیشن اب بھی کمزور ہیں۔ بڑے منصوبوں پر سرمایہ کاری اور اصلاحات پر توجہ کم ہے، جبکہ صنفی مساوات اور سماجی شمولیت کا عمل سست ہے۔
رپورٹ میں پانی کے معیار کی نگرانی کے لیے ایک آزاد اتھارٹی کے قیام کی سفارش کی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ حکمرانی میں بہتری نہ آئی تو ترقی غیر مساوی رہے گی۔ ایشیا پیسفک میں 2.7 ارب لوگ پانی کی کمی سے متاثر ہو چکے ہیں، اور براعظم ایشیا میں واٹر سیکیورٹی کے لیے 250 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی زوال اور فنڈنگ کی کمی مستقبل میں خطرات بڑھا رہی ہے، جبکہ براعظم ایشیا دنیا کے 41 فیصد سیلابوں کا مرکز ہے۔ پانی اور صفائی کے منصوبوں پر موجودہ اخراجات ضرورت کا صرف 40 فیصد ہیں۔ سالانہ 150 ارب ڈالر کا فنڈنگ گیپ واٹر سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے، اور 2040ء تک خطے میں پانی کے نظام کے لیے 4 ٹریلین ڈالر درکار ہوں گے۔