لاہور: لاہور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ میو اسپتال نے گزشتہ 14 ماہ کے دوران کتے کے کاٹنے کے 1700 سے زائد متاثرہ افراد کو طبی امداد فراہم کی ہے۔
اسپتال کے ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حادثات و ایمرجنسی وارڈ نے 24 ستمبر 2024 سے اب تک 1796 مریضوں کا علاج کیا، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
یہ رپورٹ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (YDA) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر سلمان کاظمی کی درخواست کی سماعت کے دوران عدالت میں پیش کی گئی۔ درخواست گزار نے آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور صوبے میں ریبیز ویکسین کی کمی کے فوری حل کا مطالبہ کیا۔
جسٹس خالد اسحٰق نے کتے کے کاٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کو سڑکوں پر کتوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، اور جانوروں کے حقوق کے ساتھ عوامی حفاظت کو بھی مدنظر رکھا جائے۔
جج نے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ وہ اگلی سماعت پر اپنی تفصیلی رپورٹس جمع کرائیں۔
درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ انتظامیہ آوارہ کتوں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کر رہی، جس کی وجہ سے شہر کے کئی علاقوں میں بچے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے۔
وکیل نے دلیل دی کہ اینمل برتھ کنٹرول پالیسی 2021، جس کے تحت کتوں کو مارنے پر پابندی ہے، عوامی صحت کے بحران کی وجہ بن رہی ہے اور اسے کالعدم قرار دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ تمام سرکاری ہسپتالوں میں ریبیز کے مفت علاج کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور پنجاب بھر میں کتے کے کاٹنے کے واقعات، ریبیز سے اموات، اور ویکسین کے ذخائر پر مشتمل ایک جامع رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیا جائے۔
اظہر صدیق نے مزید استدعا کی کہ مارچ 2025 میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کردہ وہ حکمِ امتناع معطل کیا جائے، جس میں اینمل برتھ کنٹرول پالیسی کے تحت آوارہ کتوں کو مارنے پر پابندی لگائی گئی تھی، کیونکہ اس سے عوامی صحت کا بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔