انجینئر محمد علی مرزا کیس،عدالت نے اسلامی نظریاتی کونسل کو آخری موقع دے دیا

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلامی نظریاتی کونسل کو آخری بار ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انجینئر محمد علی مرزا سے متعلق اپنے جواب عدالت میں جمع کرائے۔

یہ مقدمہ اُس قرارداد سے متعلق ہے جس میں انجینئر محمد علی مرزا کو گستاخی کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔ مرزا نے اس قرارداد کو کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

سماعت کے دوران معلوم ہوا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ابھی تک اپنا تحریری جواب جمع نہیں کرایا۔ عدالت نے کونسل کو مزید وقت دینے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ایک ہفتے کی آخری مہلت دے دی۔

دوسری جانب، انجینئر محمد علی مرزا نے بھی عدالت میں درخواست دی ہے کہ انہیں کیس میں فریق بنایا جائے۔ تاہم رجسٹرار آفس نے اس درخواست پر کچھ اعتراضات لگا دیے۔

مرزا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست پر اعتراضات کی وجہ سے وہ آج سماعت کے لیے پیش نہیں ہو سکی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پہلے اعتراضات دور کیے جائیں، پھر عدالت اس درخواست پر فیصلہ کرے گی۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ ساری کارروائی اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے پر مبنی ہے۔ اگر یہ نیا تصور درست مان لیا جائے تو پھر تمام توہینِ مذہب کے کیسز بھی کونسل کو بھیجے جانے چاہییں۔

وکیل ڈاکٹر اسلم خاکی نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے دائرہ اختیار سے بڑھ کر کام کیا ہے، کیونکہ وہ صرف صدرِ مملکت یا کسی صوبے کے گورنر کی درخواست پر ہی رائے دینے کی مجاز ہے۔

اس پر جسٹس کیانی نے کہا کہ ممکن ہے کونسل کو اب تفتیش کے کچھ اختیارات حاصل ہو گئے ہوں۔

وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ کونسل کی جانب سے انجینئر محمد علی مرزا کے خلاف جاری قرارداد کو فی الحال معطل کر دیا جائے۔

جسٹس کیانی نے جواب میں کہا کہ ابھی ایسا فیصلہ کرنا مشکل ہے، کیونکہ دوسری فریق کا جواب موصول نہیں ہوا۔ جب تک کونسل کا مؤقف سامنے نہیں آ جاتا، عبوری حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک ہفتے میں جواب نہ آیا تو پھر عدالت خود حکم جاری کرے گی۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت 12 نومبر تک ملتوی کر دی۔