علیمہ خان کے تیسری بار ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری، عدالت نے سخت حکم بھی جاری کر دیا

راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پاکستان تحریکِ انصاف کی چیئرمین عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کے خلاف درج مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے ایک بار پھر ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے پولیس کو حکم دیا ہے کہ انہیں گرفتار کرکے آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کیا جائے۔

یہ مقدمہ 26 نومبر کے احتجاج سے متعلق ہے، جس میں علیمہ خان سمیت 11 افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔ سماعت انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج امجد علی شاہ نے کی۔

عدالت نے علیمہ خان کی مسلسل غیر حاضری پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں متعدد بار طلب کیا جاچکا ہے، مگر وہ پیش نہیں ہوئیں۔
جج نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے احکامات کو نظرانداز کرنا قابلِ قبول نہیں، اس لیے تیسری مرتبہ ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاتے ہیں۔اسی دوران عدالت نے علیمہ خان کے ضامن عمر شریف کے بھی ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے ان کی جائیداد کی تفصیلات کی تصدیق کے لیے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو ہدایت جاری کردی۔

سماعت کے دوران عدالت کے باہر لیڈی پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات رہی۔پراسیکیوشن کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ علیمہ خان کی آج بھی غیر حاضری ضمانت منسوخی کے زمرے میں آتی ہے، لہٰذا ان کے خلاف گرفتاری کی کارروائی ضروری ہے۔

دوسری جانب علیمہ خان کے وکیلِ صفائی نے عدالت میں مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موکلہ کے خلاف جاری کیے گئے وارنٹ غیر قانونی اور یکطرفہ کارروائی کے نتیجے میں جاری ہوئے۔انہوں نے کہا کہ عدالت نے فردِ جرم عائد کرنے سے پہلے ہی دہشت گردی کی دفعات لگا دی ہیں، جبکہ ان دفعات کے خلاف علیحدہ درخواست پہلے ہی سماعت کے لیے منظور ہوچکی ہے۔وکیل نے مزید کہا کہ اس صورتحال میں علیمہ خان کے خلاف فردِ جرم عائد کرنے کی کارروائی قانونی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

کیس میں نامزد دیگر 10 ملزمان عدالت میں پیش ہوئے، جبکہ استغاثہ کے پانچ گواہان بھی عدالت میں موجود تھے اور انہوں نے مالِ مقدمہ پیش کیا۔عدالت نے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر علیمہ خان کو ہر صورت گرفتار کر کے 22 تاریخ کو پیش کیا جائے تاکہ کارروائی کو آگے بڑھایا جا سکے۔
قانونی ماہرین کے مطابق عدالت کی جانب سے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کا تیسری بار اجرا اس مقدمے میں صورتحال کو مزید سنگین بنا سکتا ہے۔علیمہ خان چونکہ ایک نمایاں سیاسی شخصیت ہیں، اس لیے ان کی گرفتاری نہ صرف قانونی بلکہ سیاسی طور پر بھی حساس نوعیت اختیار کر سکتی ہے۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کا نتیجہ تحریک انصاف کی سیاسی حکمتِ عملی پر بھی اثرانداز ہوسکتا ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب پارٹی قیادت عدالتی معاملات میں گھری ہوئی ہے۔دوسری طرف، وکیل صفائی کے مؤقف کے مطابق اگر عدالت نے فرد جرم اور دہشت گردی کی دفعات کے نفاذ کے حوالے سے موجود قانونی پیچیدگیوں پر غور نہ کیا تو یہ کیس ایک طویل قانونی تنازعے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔فی الحال عدالت نے اپنا موقف واضح کردیا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور کسی کو بھی عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔