میں اعلان کر رہا ہوں کہ جنرل عاصم منیر چیف آف ڈیفنس فورسز ہیں:حنیف عباسی

اسلام آباد :وفاقی وزیر حنیف عباسی نے نجی ٹی وی چینل کو خصوصی انٹرویو میں اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’میں اعلان کر رہا ہوں کہ جنرل عاصم منیر چیف آف ڈیفنس فورسز ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا عہدہ ملنے کی خبر بھی انہوں نے دو روز قبل ہی دے دی تھی۔

حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ ممکن ہے اس فیصلے کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہو۔ ’’یہ ہماری صوابدید ہے کہ ہم جب چاہیں اعلان کریں۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے پاکستان کو جو عزت دلوائی ہے وہ بے مثال ہے۔ اپنی حدود میں رہتے ہوئے بھارت کے جنگی طیارے گرائے، جس کا اعتراف پوری دنیا نے کیا۔‘‘

انہوں نے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان کا حال بلی کے خواب میں چھیچھڑے والا ہے۔ ہم نے بہت جیلیں کاٹیں مگر کبھی ریاست کے خلاف سازش نہیں کی۔ آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت کس نے لانگ مارچ کیا؟ کس نے دھمکیاں دیں کہ یہ تعیناتی نہ ہو؟ مگر بہرحال عاصم منیر ہی آرمی چیف بنے۔‘‘

حنیف عباسی نے کہا کہ خواجہ آصف کو سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر تبصرے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس دور میں سیاسی فائدہ اٹھا چکے تھے۔ ان کے بقول، جو شخص اپنے فائدے کو بھول جائے، وہ پھر آج کی حکومت کے بارے میں بھی مختلف بیانات دیتا ہے۔ ’’میں نواز شریف اور فیلڈ مارشل کی تعریف کر رہا ہوں اور آئندہ بھی یہی کہوں گا۔ میری خواجہ آصف سے بول چال بھی نہیں کیونکہ میں ایسا تعلق نہیں رکھتا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے پاس بے شمار ریاستی ذمہ داریاں ہیں، وہ کسی کی صلح کرانے کے لیے وقت نہیں نکال سکتے۔ ’’اسحاق ڈار سے میرا روحانی تعلق ہے، میں انہیں پیر صاحب کہتا ہوں۔ انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ خواجہ آصف کے خلاف گفتگو کی جائے۔‘‘

مولانا فضل الرحمان سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے حنیف عباسی نے کہا کہ وہ قابل احترام ہیں، تاہم مریم نواز پر ان کی بات نامناسب تھی۔ ’’اگر وہ مریم نواز کو بیٹی کہتے ہیں تو پھر بیٹی کے بارے میں ایسی گفتگو مناسب نہیں۔‘‘

سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’جب وہ طاقت میں تھے تو سمجھتے تھے کہ کوئی ان پر نظر نہیں رکھ رہا، مگر ان کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی اور سب کچھ سامنے آ چکا ہے۔ دشمن تو اداروں کی تقسیم کے خواب دیکھتا ہے، لیکن اگر اندر سے کوئی ایسا کام کرے تو پھر پکڑا جانا ہی پڑتا ہے۔‘‘