59 فیصد امریکیوں نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کی حمایت کردی

واشنگٹن:امریکا میں کیے گئے ایک حالیہ سروے میں شہریوں کی اکثریت نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کی حمایت کر دی ہے، جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مؤقف کے برعکس ہے۔ سروے کے نتائج نے امریکی عوام اور ٹرمپ کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی کے درمیان واضح فرق کو نمایاں کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق رائٹرز اور اپسوس (Reuters/Ipsos) کے مشترکہ سروے میں 59 فیصد امریکی شہریوں نے کہا کہ امریکا کو فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کر لینا چاہیے۔ ان میں 80 فیصد ڈیموکریٹس اور 41 فیصد ری پبلکنز شامل ہیں، جنہوں نے فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ عوامی رائے ٹرمپ کے حالیہ بیانات سے متصادم ہے، کیونکہ وہ فلسطین کی بطور ریاست تسلیم کرنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
یہ سروے 15 سے 20 اکتوبر 2025 کے دوران کیا گیا، جس میں 4,385 بالغ امریکی شہریوں نے حصہ لیا۔ مجموعی طور پر 33 فیصد نے فلسطینی ریاست کی مخالفت کی، جبکہ بقیہ شرکا نے یا تو کوئی مؤقف نہیں دیا یا وہ غیر یقینی کے شکار رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی جماعت ری پبلکن پارٹی کے اندر بھی اختلافِ رائے سامنے آیا۔ تقریباً 53 فیصد ری پبلکنز نے فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کی، مگر 41 فیصد نے اس کی حمایت کر کے ایک نئی سوچ کی عکاسی کی۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جن میں برطانیہ، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا جیسے امریکا کے قریبی اتحادی بھی شامل ہیں۔ اسرائیل نے اس پیش رفت کی مذمت کرتے ہوئے اسے خطے کے لیے خطرناک قرار دیا، تاہم عالمی برادری میں فلسطین کی حمایت بڑھتی جا رہی ہے۔
اسرائیل کے قیام کے بعد 1948 سے جاری تنازع نے لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کیا اور کئی دہائیوں سے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔
سروے میں شامل 60 فیصد امریکی شہریوں کا کہنا تھا کہ غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں حد سے زیادہ تھیں، جب کہ صرف 32 فیصد نے اس سے اختلاف کیا۔ اس رائے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی عوام اسرائیل کے بجائے زیادہ متوازن خارجہ پالیسی کے حامی بنتے جا رہے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اگرچہ ٹرمپ کی مجموعی پالیسی پر عوامی حمایت محدود ہے، مگر امن کی کوششوں کے حوالے سے انہیں کچھ کریڈٹ ضرور دیا جا رہا ہے۔ سروے کے مطابق 51 فیصد شرکا نے کہا کہ اگر ٹرمپ کی امن کوششیں کامیاب ہوتی ہیں تو وہ اس کے مستحقِ تعریف ہوں گے، جب کہ 42 فیصد نے اس خیال سے اختلاف کیا۔
تاہم ٹرمپ کی مجموعی صدارتی کارکردگی پر ڈیموکریٹس میں صرف 5 فیصد نے مثبت رائے دی، لیکن ہر چار میں سے ایک ڈیموکریٹ نے کہا کہ اگر خطے میں امن قائم ہوتا ہے تو ٹرمپ کو اس کا کریڈٹ ملنا چاہیے۔
خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی ٹرمپ کی مقبولیت میں معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے، جو 33 فیصد سے بڑھ کر 38 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ جولائی 2025 کے بعد سے ان کی سب سے بلند سطح ہے۔