حکومتِ سندھ نے ایک بڑا اور تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے کچے کے علاقوں کے ڈاکوؤں کے لیے سرینڈر پالیسی جاری کر دی ہے۔ اس پالیسی کا مقصد برسوں سے خوف، جرائم اور بدامنی کے شکار علاقوں میں پائیدار امن قائم کرنا ہے۔
محکمہ داخلہ کے مطابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی منظوری سے یہ پالیسی سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے کچے کے علاقوں میں نافذ کی گئی ہے۔ اس اسکیم کے تحت تقریباً 50 ایسے ڈاکو، جن کے سروں کی قیمت مقرر تھی، رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ 22 اکتوبر کو ایک خصوصی تقریب منعقد کی جائے گی، جس میں یہ افراد اپنے ہتھیار حکومت کے حوالے کر کے قومی دھارے میں شامل ہوں گے۔
محکمہ داخلہ سندھ نے واضح کیا ہے کہ یہ پالیسی عام معافی نہیں بلکہ امن کی بحالی کے لیے ایک قدم ہے۔ ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوؤں کو قانون کے مطابق اپنے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا، تاہم حکومت ان کے اہلِ خانہ کو کسی بھی صورت ہراساں نہیں کرے گی۔
پالیسی کے مطابق کچے کے علاقوں میں تعلیم، صحت اور فلاحی منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ بند اسکولز اور ڈسپنسریاں دوبارہ کھولی جائیں گی تاکہ وہاں کے بچوں اور خواتین کو بنیادی سہولیات میسر آئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، ہتھیار ڈالنے والوں کو فنی تربیت اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے تاکہ وہ دوبارہ جرائم کی طرف نہ جائیں بلکہ باعزت زندگی گزار سکیں۔
محکمہ داخلہ نے اس پالیسی پر عملدرآمد کے لیے مانیٹرنگ کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں اور ایک ریڈریسل سیل بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ عوام کی شکایات اور خدشات کا فوری ازالہ کیا جا سکے۔ اس پالیسی کے نتائج کا ہر ماہ جائزہ لیا جائے گا اور زمینی حقائق کے مطابق ضروری تبدیلیاں کی جائیں گی۔
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ کچے کے علاقے برسوں تک خوف اور غیر یقینی کی علامت رہے ہیں، مگر اب انہیں امن، امید اور ترقی کی نئی شناخت دینے کا وقت آ گیا ہے۔ حکومت کا مقصد نہ صرف جرائم کا خاتمہ ہے بلکہ ان علاقوں میں سماجی اور معاشی ترقی کے مواقع پیدا کرنا بھی ہے۔
یہ ایک اہم قدم ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت سندھ صرف کارروائیوں پر نہیں بلکہ مسلسل امن اور بحالی کے ایک پائیدار نظام پر یقین رکھتی ہے۔ اگر اس پالیسی پر صحیح طریقے سے عمل ہوا تو یہ قدم نہ صرف کچے کے علاقے بلکہ پورے صوبے میں امن و استحکام کی ایک نئی مثال بن سکتا ہے۔