پاکستان کی بیرونی مالی صورتحال ایک بار پھر شدید دباؤ کا شکار

کراچی:پاکستان کی بیرونی مالی صورتحال ایک بار پھر شدید دباؤ کا شکار ہے۔ مالی سال 2026 کے ابتدائی چار ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر 733 ملین ڈالر تک پہنچ گیا ہے، جو گزشتہ سال اسی مدت کے 206 ملین ڈالر کے خسارے سے تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔

اکتوبر میں صورتحال مزید بگڑ گئی، جب کرنٹ اکاؤنٹ 112 ملین ڈالر خسارے میں رہا، حالانکہ ستمبر میں یہی اکاؤنٹ 83 ملین ڈالر سرپلس میں تھا۔

اسٹیٹ بینک کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا ستمبر FY26 میں ہی 621 ملین ڈالر کا خسارہ ریکارڈ ہو چکا تھا، جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 83 ملین ڈالر سرپلس تھا۔

تجارتی توازن شدید دباؤ میں

بیرونی کھاتے بگڑنے کی بنیادی وجہ درآمدات میں تیزی اور برآمدات کی سست رفتاری ہے۔

جولائی تا اکتوبر FY26 میں مجموعی تجارتی خسارہ بڑھ کر 11.26 ارب ڈالر ہوگیا، جو گزشتہ سال 9.61 ارب ڈالر تھا۔

اشیا کی برآمدات میں معمولی بہتری آئی اور یہ 10.63 ارب ڈالر رہیں، جو صرف 2 فیصد اضافہ ہے۔

اکتوبر میں برآمدات 2.75 ارب ڈالر رہیں، جو گزشتہ سال اکتوبر کے 3 ارب ڈالر سے کم ہیں۔

خدمات کی برآمدات نے کچھ سہارا فراہم کیا:

مجموعی خدمات برآمدات 3.03 ارب ڈالر رہیں۔

آئی ٹی اور ٹیلے کام کی برآمدات 1.44 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔

درآمدات میں نمایاں اضافہ

اشیا کی درآمدات بڑھ کر 20.72 ارب ڈالر ہوگئیں، جو گزشتہ سال سے 9.6 فیصد زیادہ ہیں۔

خدمات کی درآمدات 4.20 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔

بنیادی آمدنی کا خسارہ اب بھی سب سے بڑا چیلنج ہے، جو چار ماہ میں 3.09 ارب ڈالر تک رہا۔

صرف اکتوبر میں اس مد میں 905 ملین ڈالر خسارہ ریکارڈ ہوا۔

ترسیلات زر اور مالی کھاتے کی صورتحال
ترسیلات زر بیرونی کھاتوں کے لیے سب سے بڑا سہارا ثابت ہوئیں:

جولائی تا اکتوبر ترسیلات زر بڑھ کر 12.96 ارب ڈالر ہوگئیں۔
تاہم یہ تیزی سے بڑھتے تجارتی خسارے کو پورا نہ کر سکیں۔

مالی کھاتہ بھی دباؤ میں رہا:

چار ماہ میں 605 ملین ڈالر خسارہ ریکارڈ ہوا۔

ایف ڈی آئی کم ہوکر 748 ملین ڈالر پر آ گئی۔

مستقبل کے خطرات
اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر اکتوبر کے اختتام تک بڑھ کر 14.64 ارب ڈالر ہو گئے تھے، مگر بڑھتا ہوا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور آنے والے مہینوں میں بھاری قرض ادائیگیاں بیرونی معاشی استحکام کے لیے نئے خطرات پیدا کر رہی ہیں۔
پاکستان کی معیشت ایک بار پھر اس مقام پر کھڑی ہے جہاں بیرونی کھاتوں کی بحالی اور درآمدات کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے فوری حکومتی حکمت عملی ناگزیر دکھائی دیتی ہے۔