ہر ہفتے دس لاکھ صارفین چیٹ جی پی ٹی کیساتھ کون سے خطرناک خیالات شیئر کرتے ہیں؟

اسلام آباد :دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے تیز رفتار پھیلاؤ نے جہاں زندگی کو آسان بنایا ہے، وہیں ماہرینِ نفسیات اس کے بڑھتے نفسیاتی اور سماجی اثرات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ تازہ رپورٹوں کے مطابق اے آئی چیٹ بوٹس کے ساتھ غیر ضروری گفتگو اور مشورے لینے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، جو انسان کو سماجی طور پر تنہا، ذہنی طور پر کمزور اور جذباتی طور پر غیر متوازن بنا رہا ہے۔
اوپن اے آئی کی جانب سے جاری کردہ ایک بلاگ پوسٹ کے مطابق، ہر ہفتے دنیا بھر میں تقریباً دس لاکھ (1 ملین) سے زیادہ چیٹ جی پی ٹی صارفین ایسے پیغامات بھیجتے ہیں جن میں خودکشی کے ارادے یا منصوبے کے اشارے شامل ہوتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال کی سنگین تصویر پیش کرتے ہیں۔
معروف ماہرِ نفسیات پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی کے مطابق، اگرچہ اے آئی کے مثبت پہلوؤں سے انکار ممکن نہیں — جیسے پیچیدہ کاموں کو سیکنڈز میں مکمل کرنا — لیکن اس کے منفی اثرات انسانی معاشرت اور ذہنی صحت کو متاثر کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’اے آئی کے غیر ضروری استعمال نے انسان کو سماجی طور پر تنہا (Socially Isolated) کر دیا ہے۔ پہلے خاندان کھانے کے دوران یا بیٹھک میں بات چیت کرتے تھے، اب سب اسکرینوں میں گم ہیں۔ جب دماغ استعمال نہیں ہوتا تو وہ اپنی صلاحیت کھونے لگتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر آفریدی نے مزید کہا کہ ماضی میں بچوں کو جسمانی اور ذہنی تربیت دی جاتی تھی جیسے گھڑ سواری، تیر اندازی اور تقریر، مگر آج کے دور میں ٹیکنالوجی نے یہ تمام سرگرمیاں سلب کر لی ہیں۔ ’’گاڑی کوئی اور چلاتا ہے، چوکیداری کوئی اور کرتا ہے، اور اب لکھنے کا کام بھی چیٹ بوٹس کر دیتے ہیں، جس سے دماغی مشق ختم ہو گئی ہے۔‘‘
ڈاکٹر اقبال کے مطابق، جسمانی سرگرمیوں سے دماغ میں ڈوپامین (dopamine) اور سیروٹونین (serotonin) جیسے خوشی پیدا کرنے والے کیمیکل کی سطح بڑھتی ہے، مگر چیٹ بوٹس سے غیر حقیقی گفتگو انسان کو اس قدرتی توازن سے دور کر دیتی ہے۔ ’’جب انسان صرف اسکرین پر بات کرتا ہے، تو وہ حقیقی جذبات سے محروم ہو جاتا ہے، جس سے ڈپریشن، انزائٹی اور حتیٰ کہ خودکشی کے رجحانات میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے واضح کیا کہ چیٹ بوٹس ہمدردی (Empathy) اور خلوص (Sincerity) جیسے انسانی احساسات سے محروم ہوتے ہیں، اسی لیے ان کے مشورے اکثر غیر حقیقی یا نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر آفریدی نے مشورہ دیا کہ روزانہ اسکرین ٹائم کو دو گھنٹے سے کم رکھا جائے، غیر ضروری چیٹ بوٹس سے بات چیت سے گریز کیا جائے، اور دماغی مشقوں — جیسے پزلز اور معمے — کو معمول بنایا جائے۔
ان کے مطابق، ’’اے آئی پر ہر مشورے کے لیے انحصار نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے جستجو اور فیصلہ کرنے کی طاقت کم ہو جاتی ہے۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’انسان کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔ چیٹ بوٹس جذباتی دباؤ کم نہیں کر سکتے۔ اگر آپ مسلسل گوگل میپ استعمال کریں تو آپ کی راستہ پہچاننے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، اسی طرح اے آئی پر انحصار دماغ کو محنت سے دور کر دیتا ہے۔‘‘
کلینیکل سائیکولوجسٹ ڈاکٹر اسما احمد نے بھی اس رجحان کو خطرناک قرار دیا۔ ان کے مطابق، ’’چیٹ بوٹس سے بات چیت کے کچھ فوائد ضرور ہیں، جیسے فوری معلومات یا سہولت، لیکن ان کا حد سے زیادہ استعمال ذہنی انحصار (Dependency) پیدا کر رہا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’اب لوگ معمولی علامات پر بھی ڈاکٹر کے بجائے اے آئی سے مشورہ لیتے ہیں، جو خطرناک ہے۔ اس سے رشتوں میں دوریاں بڑھ رہی ہیں، کیونکہ لوگ ایک ساتھ بیٹھے بھی موبائل میں مصروف رہتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر اسما کے مطابق، کئی لوگ چیٹ بوٹس سے اتنے مانوس ہو جاتے ہیں کہ ان کے نام رکھ لیتے ہیں یا انہیں دوست سمجھنے لگتے ہیں۔ ’’ایسے افراد کو حقیقت کی دنیا میں واپس لانا ضروری ہے، کیونکہ اے آئی کے پاس جذبات نہیں ہوتے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’اے آئی چیٹ بوٹس کا مسلسل استعمال خود پسندی (Narcissism) کے رجحان کو بھی بڑھا رہا ہے۔ ایسے لوگ اپنی بات زیادہ سننا چاہتے ہیں اور اختلاف برداشت نہیں کرتے۔ چیٹ بوٹس چونکہ ہمیشہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، اس لیے یہ رویہ نارسیسسٹک پرسنالٹی ڈس آرڈر میں بدل سکتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر اسما احمد کے مطابق، بچوں پر اے آئی کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ ’’بڑھتی عمر کے بچے جو والدین سے بات کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں، وہ اپنے سوالات چیٹ بوٹس سے پوچھنے لگے ہیں۔ یہ رویہ خطرناک ہے کیونکہ ان کا دماغ تنقیدی سوچ (Critical Thinking) سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
ایک نئی تحقیق کے مطابق، اے آئی چیٹ بوٹس استعمال کرنے والے افراد کے دماغ کا مخصوص حصہ ہی متحرک رہتا ہے، جبکہ باقی حصہ سست پڑ جاتا ہے۔ اس سے ان کی تخلیقی صلاحیت، توجہ اور فیصلہ سازی متاثر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر اسما نے والدین کو مشورہ دیا کہ ’’بچوں کو بغیر جج کیے سنیں، ان سے بات کریں، تاکہ وہ حقیقی تعلقات کی اہمیت سمجھ سکیں۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اب بھی مینٹل ہیلتھ ایک “اسٹیگما” کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ لوگ اپنے مسائل دوسروں سے شیئر کرنے کے بجائے چیٹ بوٹس پر اعتماد کرتے ہیں، جو اکثر غلط رہنمائی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال آفریدی نے بتایا کہ ’’بعض اوقات چیٹ بوٹس مذہبی یا ثقافتی لحاظ سے بھی نامناسب مشورے دیتے ہیں، جیسے غذائی کمی پر حرام اشیاء تجویز کرنا — جو صارف کے عقائد اور معاشرتی اقدار کے منافی ہے۔‘‘
ماہرینِ نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ مصنوعی ذہانت ایک طاقتور آلہ ہے، لیکن اس کا غیر متوازن استعمال انسان کو خود سے دور کر رہا ہے۔ انسان کی فطرت میں تعلق، بات چیت، اور احساس شامل ہیں — جو کوئی مشین کبھی فراہم نہیں کر سکتی۔
ماہرین نے تجویز دی ہے کہ:
روزانہ کم از کم دو گھنٹے کا ڈیجیٹل وقفہ (Digital Detox) رکھا جائے۔
بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے سماجی میل جول کو بڑھایا جائے۔
ذہنی دباؤ کی صورت میں پروفیشنل ماہرینِ نفسیات سے رجوع کیا جائے، نہ کہ چیٹ بوٹس سے۔
اے آئی کا استعمال صرف تعلیم، تحقیق یا پیشہ ورانہ سرگرمیوں تک محدود رکھا جائے۔
دنیا تیزی سے مصنوعی ذہانت کے دور میں داخل ہو رہی ہے، مگر اگر انسان نے اپنی فطری جذباتی و سماجی قدروں کی حفاظت نہ کی تو وہ خود اپنی تخلیق کردہ ٹیکنالوجی کا قیدی بن سکتا ہے۔