نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہاتھ سے لکھنا، ٹائپنگ کے مقابلے میں دماغ کو زیادہ متحرک اور فعال بناتا ہے۔ اطالوی ماہرین کے مطابق، ہاتھ سے لکھنے کے عمل کے دوران دماغ کے وہ حصے زیادہ سرگرم ہو جاتے ہیں جو یادداشت، حرکت اور تخلیقی صلاحیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹائپنگ کے دوران چونکہ موٹر ایکٹیویٹی محدود ہوتی ہے، اس لیے دماغی شمولیت اور حسی فیڈ بیک (sensory feedback) میں کمی آتی ہے۔ اس کے برعکس، ہاتھ سے لکھنے کے دوران جسمانی حرکات اور احساسات کی زیادہ شمولیت ہوتی ہے، جو یادداشت کو بہتر بناتی ہے۔
تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہاتھ سے نوٹس لینے والے طلبہ اپنی پڑھائی کو زیادہ دیر تک یاد رکھتے ہیں، جب کہ ٹائپ کرنے والے طلبہ میں یہ صلاحیت کم پائی جاتی ہے۔
رپورٹ میں تعلیمی اداروں کو یہ سفارش کی گئی ہے کہ ڈیجیٹل ٹولز اور جدید تعلیمی طریقۂ کار کے ساتھ ساتھ ہاتھ سے لکھنے کی مشق کو بھی نصاب کا حصہ بنایا جائے، تاکہ طلبہ کی دماغی نشوونما اور تخلیقی سوچ کو فروغ مل سکے۔
یہ تحقیق یورپین میڈیکل جرنل میں شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، روم کی کیتھولک یونیورسٹی آف دی سیکرڈ ہارٹ کے محقق جوسیپے مارانو اور ان کی ٹیم نے مختلف نیورولوجیکل مطالعات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہاتھ سے لکھنے کے دوران دماغ کے وہ حصے زیادہ متحرک ہوتے ہیں جو حرکت، احساس اور یادداشت کو کنٹرول کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، یہ عمل نہ صرف توجہ اور یادداشت کو بہتر بناتا ہے بلکہ تخلیقی صلاحیتوں کو بھی بڑھاتا ہے، اسی لیے ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے دور میں ہاتھ سے لکھنے کی عادت برقرار رکھنا ذہنی صحت کے لیے نہایت مفید قرار دیا گیا ہے۔