مجھے شرم آتی ہے ،جاوید اختر کا امیر خان متقی کے استقبال پر طنزیہ تبصرہ

بھارت کے معروف نغمہ نگار اور اسکرین رائٹر جاوید اختر نے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کو بھارت میں دیے گئے استقبال پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے نے انہیں شرمندگی اور افسوس میں مبتلا کر دیا ہے۔

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اس وقت بھارت کے چھ روزہ سرکاری دورے پر ہیں، جو طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد کسی طالبان رہنما کا پہلا باضابطہ بھارتی دورہ ہے۔ اس موقع پر بھارتی حکام اور بعض مذہبی اداروں کی جانب سے متقی کے استقبال نے نہ صرف سوشل میڈیا پر بحث چھیڑ دی بلکہ کئی حلقوں میں حیرت اور تنقید بھی پیدا کی۔

جاوید اختر نے اپنے سخت ردعمل میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ انہیں افسوس ہوتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بدترین دہشت گرد گروہ کے نمائندے کو وہی لوگ عزت و احترام سے خوش آمدید کہتے ہیں، جو ہر فورم پر دہشت گردی کے خلاف دعوے کرتے نہیں تھکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں طالبان کے رہنما کو پروٹوکول دینا ان تمام اصولوں کے منافی ہے جن کا دعویٰ بھارت ہمیشہ عالمی سطح پر کرتا آیا ہے۔ جاوید اختر کے مطابق، ایسے افراد کو خوش آمدید کہنا جنہوں نے خواتین کی تعلیم پر پابندی لگائی، انسانی حقوق کو پامال کیا اور اظہارِ رائے کی آزادی کو دبایا، ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔

جاوید اختر نے اپنی بات کو مزید سخت کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کو بھی نشانے پر لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “دیوبند کو شرم آنی چاہیے، کیونکہ انہوں نے اس شخص کو مذہبی ہیرو کے طور پر خوش آمدید کہا، جو اُن لوگوں میں شامل ہے جنہوں نے افغان لڑکیوں کے اسکول جانے پر مکمل پابندی عائد کی۔‘‘

یاد رہے کہ امیر خان متقی پر اقوام متحدہ کی پابندیاں عائد ہیں، تاہم انہیں اس دورے کے لیے خصوصی اجازت دی گئی ہے۔ ان کے بھارت میں قیام کے دوران خواتین صحافیوں کو ایک پریس کانفرنس سے دور رکھنے کے فیصلے نے بھی نیا تنازع کھڑا کر دیا۔ بعد ازاں طالبان وزیر خارجہ نے وضاحت دی کہ یہ اقدام “محض تکنیکی مسئلہ” تھا، کسی کو جان بوجھ کر روکا نہیں گیا۔

جاوید اختر کا ردعمل صرف ایک فرد کی رائے نہیں بلکہ اس متضاد رویے پر روشنی ڈالتا ہے جس کا مظاہرہ بعض ممالک بین الاقوامی تعلقات میں کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ دہشت گردی کے خلاف سخت مؤقف اپناتے ہیں، مگر دوسری جانب انہی عناصر سے سفارتی روابط بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔
یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا سیاسی مفادات، انسانی اقدار سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں؟ جاوید اختر کی بات نے کم از کم یہ یاد دہانی ضرور کرائی ہے کہ اگر دنیا واقعی انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم اور انصاف کی بات کرتی ہے تو پھر اس کے فیصلے بھی انہی اصولوں کے مطابق ہونے چاہئیں، نہ کہ وقتی سیاسی ضرورتوں کے تحت۔